بلوچستان: طوفانی بارش سے تین دن میں 14 افراد ہلاک، سینکڑوں مکان منہدم

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بیشر علاقوں میں پیر سے شدید بارش کا سلسلہ جاری ہے جس سے بیشتر نشیبی علاقے زیرَ آب آ گئے اور ندی نالوں میں بھی طغیانی ہے۔

بلوچستان میں گزشتہ تین دن کے دوران بارشوں اور سیلاب سے 14 افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ لگ بھگ 300 رہائشی عمارات کو پرنقصان پہنچا ہے۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بیشر علاقوں میں پیر سے شدید بارش کا سلسلہ جاری ہے جس سے بیشتر نشیبی علاقے زیرَ آب آ گئے اور ندی نالوں میں بھی طغیانی ہے۔

محکمۂ موسمیات کے مطابق کوئٹہ میں 30 ملی میٹر،مستونگ 21، قلات 12، پشین 10، اورماڑہ سات، خضدار چھ، لورالائی پانچ،لسبیلہ35 اور زیارت میں 17ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ پراونشل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے ) کے حکام کے مطابق بارش سے سب سے زیادہ جانی نقصان صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ہوا ہےجہاں اموات کی تعداد 11 بتائی جا رہی ہے۔

صوبائی حکومت نے ایمرجنسی نافذ کرکے کوئٹہ شہر کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے۔

کوئٹہ کے علاقے سریاب مل میں بارش کے باعث دیوار ایک جھونپڑی پر گری، جس سے تین خواتین سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے۔ خلجی کالونی میں ایک شخص کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوا۔مشرقی بائی پاس پر بھوسہ منڈی کے قریب دو کم سن بہنیں پانی میں ڈوب گئیں جن میں سے ایک کی لاش نکال لی گئی جب کہ دوسری کی تلاش جاری ہے۔اس کے علاوہ مستونگ، خضدار اور کچھی کے علاقوں میں بھی اموات رپورٹ ہوئیں۔

پشین میں طوفانی بارش اور سیلابی ریلوں سے کھڑی فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچا۔ مقامی افراد کے مطابق چیک ڈیم ٹوٹنے سے متعدد رہائشی علاقوں میں بھی نقصان ہوا ہے۔ ادھر توبہ اچکزئی میں دو سو بکریوں کا ریوڑ کے سیلابی پانی میں بہہ گیا۔ مقامی افراد کے مطابق اس ریوڑ کے ساتھ چرواہا بھی تھا۔

اس کے علاوہ لسبیلہ، سبی، آواران، دکی، کوہلو، بارکھان، ژوب اور ڈیرہ بگٹی بھی مون سون کی بارشوں اور سیلاب کے باعث نقصانات ہوئی ہیں۔

کوئٹہ کے علاقے بلوچ کالونی کے ایک رہائشی رضا محمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تیز بارش کے بعد گھروں میں پانی آ گیا۔ ہمارا کافی نقصان ہوا ہے۔ گھر کا سامان، بھیڑ، بکریاں اور دیگر مویشی سب کچھ پانی میں بہہ گیا ہے۔

رضا محمد کے بقول بارش اور سیلاب سے صرف ان کا نقصان نہیں ہوا بلکہ پورے علاقے میں ہر گھر کا یہی حال ہے۔ سب لوگ پریشان ہیں ان کے پاس اب رہنے کو جگہ نہیں ہے۔

کوئٹہ کے نواحی علاقے مشرقی بائی پاس کے رہائشی محمد عمر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رات کو بارش کے بعد اچانک سیلابی پانی گھروں میں داخل ہوا۔ متعدد گھروں کی دیواریں گر گئیں اور لوگوں نے مشکل سے بچوں کو کمروں سے نکال کر جان بچائی۔

سریاب روڈ پر متاثرین کو مقامی لوگوں نے ایک اسکول میں پناہ دی اور انہیں کھانے پینے کا سامان بھی فراہم کیا۔ متاثرین میں سے اکثریت نے یہ شکوہ کیا کہ حکومتی سطح پر ان کی مدد نہیں کی گئی۔

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ملک بھر میں 14 جون سے شروع ہونے والی مون سون بارشوں سے اب تک 77 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 39 اموات بلوچستان میں ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قومی اور صوبائی ڈزاسٹر مینجمنٹ حکام کی مدد سے مقامی لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اب تک پاکستان بھر میں بارشیں اوسط بارش سے 87 فی صد زیادہ ہو ئی ہیں۔ بلوچستان میں بارش اوسط سے 274 فی صد زیادہ جب کہ سندھ میں 261 فی صد زیادہ بارش ہوئی ہے جو خطرناک صورتِ حال ہے۔

بلوچستان کے سیکریٹری مواصلات و تعمیرات روشن علی شیخ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حالیہ طوفانی بارشوں سے صوبے کے پہاڑی علاقوں کے ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ ہے۔ جب کہ پی ڈی ایم اے بلوچستان نے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو مراسلہ ارسال کیا ہے کہ وہ اپنے اضلاع میں سیلاب جیسی قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پہاڑی اور شہری علاقوں میں سیلابی صورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے جب کہ ساحلی علاقوں میں مچھیرے کھلے سمندر میں جانے سے گریز کریں۔

پی ڈی ایم اے نے گزشتہ دو سے تین دن کے دوران کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں حالیہ مون سون بارش اور اس کے بعد آنے والے سیلاب سے 14 افراد کی اموات کی تصدیق کی ہے۔ پی ڈی ایم اے حکام کے مطابق 13 جون سے اب تک بلوچستان میں 31 افراد بارش اور سیلاب کے باعث ہلاک ہوئے ہیں۔