سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا وزیر اعظم کا نیا عہدہ ان کے لیے ملک کے اندرکے مقابلے میں جہاں وہ پہلے ہی بہت زیادہ اختیارات کے مالک ہیں،بیرونی دنیا میں ان کے لیے زیادہ اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ شاہی فرمان کے ذریعے یہ تقرری ایسے وقت کی گئی ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اس پر بحث کر رہی ہے کہ آیا ولی عہد امریکی عدالتوں میں دائر مقدمات سے استثنیٰ کے اہل ہیں یا نہیں۔
ولی عہد کے نئے خطاب کے اعلان سے پہلے، ایک جج نے امریکی وکلاء کو استثنیٰ کے سوال "statement of interest" داخل کرنے کے لیے 3 اکتوبر کی آخری تاریخ دی تھی۔ لیکن جمعہ کے روز، ولی عہد کے نئے عہدے کا حوالہ دیتے ہوئے، انتظامیہ نے45 دن کی اضافی مہلت کی درخواست کی۔ ایک عدالت میں دائر کی جانے والی یہ درخواست ، اے ایف پی نے دیکھی ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ خام تیل برآمدکرنے والے ملک کے 37 سالہ ولی عہد اور درحقیقت اختیارات کے مالک کو حالیہ برسوں کے دوران امریکہ میں متعدد مقدمات کا سامنا ہے، خاص طور پر 2018 میں سعودی صحافی جمال خشوگی کے استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں قتل سے متعلق، جس نے انہیں عارضی طور پر مغرب میں تنہا کردیا گیا تھا۔
ان کے وکلاکا استدلال ہے کہ وہ سعودی حکومت میں بڑے اور اہم عہدوں پر براجمان ہیں، اس لیے وہ استثنیٰ کے اہل ہیں۔
SEE ALSO: بائیڈن کادورۂ سعودی عرب؛ ’ولی عہد محمد بن سلمان کے سامنے خشوگی معاملہ اٹھایا‘اس ہفتے انسانی حقوق کے کارکنوں اور حکومت کے ناقدین نے فوری طور پر یہ قیاس آرائی کی کہ ولی عہد کو وزیر اعظم بنانا استثنیٰ کے دعوے کو مضبوط کرنے کی کوشش ہے۔
خشوگی کی قائم کردہ غیر سرکاری تنظیم ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ ناؤ (DAWN) کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سارہ وٹسن نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں یہ نیا عہدہ دینا ، دنیا کو دھوکہ دینے کی آخری کوشش ہے۔
سعودی حکام نے اس اقدام پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
اکتوبر 2020 میں، خشوگی کی موت کے دو سال بعد، DAWN نے خشوگی کی منگیتر، ہیٹیس چینگیز کے ساتھ مل کر امریکہ میں ایک مقدمہ درج کروایا گیا، جس میں ولی عہد شہزادہ محمد پر ایک ایسی "سازش" میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا جس کی وجہ سے خشوگی کو اغوا کیا گیا، نشہ دیا گیا،اور تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا۔
پچھلے سال، بائیڈن نے انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ کوغیر خفیہ ڈکلیئر کیا تھا جس سے پتا چلا تھا کہ خشوگی کے خلاف آپریشن کی ولی عہد نے منظوری دی تھی، اس دعوے کی سعودی حکام تردید کرتے ہیں۔
بہرحال امریکی عدالتوں میں ولی عہد کے لئے قانونی خطرات خشوگی کے مقدمے کے علاوہ بھی ہیں۔
SEE ALSO: سعودی خاتون کو حکومت مخالف ٹویٹس پر 34 برس قید کی سزاان کا نام سعد الجابری کی طرف سے دائر مقدمے میں بھی شامل کیا گیا تھا، جو سعودی عرب کی اعلیٰ انٹیلی جنس کے چوٹی کےسابق اہلکار تھے، اور 2017 میں اس وقت ولی عہد کے لئے ناپسندیدہ شخصیت بن گئے تھے جب شہزادہ محمد بن سلمان ، جانشینی کی قطار میں سب سے اوپر آگئے تھے۔
اس شکایت میں ولی عہد پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ جابری کو بہلا پھسلا کرکینیڈا میں جلاوطنی سے واپس سعودی عرب لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اور اس میں ناکام رہنے کے بعد، کینیڈا کی سرزمین پر انہیں ہلاک کرنےکے لیےایک ’’ہٹ اسکواڈ کی تعیناتی‘‘، کی سازش اس وقت ناکام ہوگئی جب زیادہ تر حملہ آوروں کو سرحد پر سے ہی لوٹا دیا گیا۔
ایک اور معاملے میں، لبنانی صحافی غدا اوئیس کی جانب سے،سعودی ولی عہد پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ اس کے موبائل ڈیوائس کو ہیک کرنے اور اسے بدنام کرنے کے لیے ’’چوری شدہ ذاتی تصاویر‘‘ پھیلانے اور انسانی حقوق کے مسائل پر رپورٹنگ کرنے سے روکنے کی اسکیم میں ملوث تھے۔
استثنیٰ کا مسئلہ موسم گرما میں اس وقت سر اٹھانے لگا جب ایک امریکی جج نے بائیڈن انتظامیہ کو یہ کہنے کے لیے یکم اگست تک کا وقت دیا کہ آیا اسے یقین ہے کہ ولی عہد استثنیٰ کے اہل ہیں یا نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جولائی میں بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے کے بعد، سعودی عرب کو عالمی طور پر تنہا کرنے کے اپنے عزم کو ترک کرتے ہوئے، ان کی انتظامیہ نے اس معاملے پر غور کرنے کے لیے مزید 60 دن کی درخواست کی۔
اس مفروضے کے ساتھ کہ جمعہ کو کی گئی درخواست میں دوبارہ 45 دن کی توسیع دی گئی ہے، نئی آخری مہلت نومبر کے وسط میں آئے گی۔
اندرون ملک کنٹرول
اس ہفتے کے اعلان سے پہلے، ولی عہد محمد بن سلمان، جنہیں اکثر ان کے نام کے انگریزی مخفف ایم بی ایس سے پکارا جاتا ہے، نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے توانائی سے لے کر سیکیورٹی تک اورکئی اہم محکموں کو سنبھال رکھا تھا۔
برمنگھم یونیورسٹی میں سعودی سیاست کے ماہر عمر کریم نے کہا کہ ان کے نئے عہدے کے نتیجے میں مملکت کے اندر بہت کم تبدیلی کی توقع ہے۔
کریم نے کہا کہ ’’ایم بی ایس کو پہلے ہی مکمل کنٹرول حاصل تھا، اور ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا۔‘‘
SEE ALSO: سعودی عرب کے ناقدین کو ہراساں کرنے والا سعودی شخص امریکہ میں گرفتارساتھ ہی، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وزیر اعظم بننے سے ان کے استثنیٰ کے دعوے کو کوئی نمایاں تقویت مل سکے گی، کیونکہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز بدستو ریاست کے سربراہ رہیں گے۔
مبصرین نے توجہ دلائی کہ سعودی شاہ نے اسی دن کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی تھی جس دن ولی عہد کی ترقی کا اعلان کیا گیا۔
یہاں تک کہ اگر استثنیٰ دینےکا سوال امریکہ میں طےہوبھی جاتا ہے، تو دوسرے ملکوں میں ان الزامات کے سامنے آنے کا امکان ہے۔
جولائی میں، این جی اوز کے ایک گروپ نے فرانس میں ایک شکایت درج کرائی تھی جس میں الزام عائد کیاگیا ہےکہ ولی عہدسلمان ، خشوگی پر تشدد اور جبری گمشدگی میں ملوث تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان الزامات کے خلاف فرانس میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، جو عالمی دائرہ اختیار(universal jurisdiction)کو تسلیم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ولی عہد کو "استغاثہ سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے کیونکہ ولی عہد کی حیثیت سے وہ ریاست کے سربراہ نہیں ہیں۔"
اس رپورٹ کا مواد خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ پر مشتمل ہے۔