معاشرتی مسائل، دہشت گردی، تنازعات اور اس طرح کے دیگر واقعات رپورٹ کرنا صحافی کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن یہ واقعات کئی مرتبہ ان کی ذہنی صحت پر گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔
پاکستان میں اگر کوئی صحافی ذہنی دباؤ کا شکار ہو تو اس مسئلے کو یا تو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا یا پھر مہنگا علاج تھیراپی کرانے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں کراچی کے ایک میڈیا ورکر فہیم مغل نے خود کشی کی تھی جس کی وجہ بے روزگاری بتائی گئی تھی۔ تاہم صحافتی اداروں میں نوکریوں میں کمی، اخبارات کی بندش، تنخواہوں میں کٹوتی اور تاخیر نے بھی میڈیا ورکرز کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
سترہ برس سے صحافت کے شعبے سے منسلک عاطف حسین کے مطابق "ایک دو بار ایسا ہوا کہ رپورٹنگ کے دوران میری آنکھیں نم ہوئیں اور ایسا بھی محسوس ہوا کہ میں رو پڑوں گا لیکن میں نے خود کو سنبھالا کیوں کہ مجھے خبر دینا تھی۔"
عاطف کے مطابق صحافی ہونے کی حیثیت سے ان کا حساس نوعیت کی خبروں سے سامنا ہوتا رہتا ہے جن میں شہر میں دہشت گردی اور بے امنی کے ساتھ ساتھ کچھ خبریں ایسی بھی ہوتی ہیں جس میں بچوں یا بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کیا گیا ، اس طرح کے واقعات نے ان کی ذہنی حالت کو اس قدر متاثر کیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کہیں بھی جانے سے منع کرنا شروع کردیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
عاطف بتاتے ہیں ان کےبیٹے کی طرف سے کبھی ایسا مطالبہ آجاتا کہ اسے اسکول کی طرف سے شہر سے باہر جانا ہے تو وہ پریشان ہوجاتے تھے۔ یہ سب ان کے گھر والوں کے لیے بھی حیران کن تھا جس کے بعد انہیں احساس ہوا کہ ایسی خبریں نہ صرف انہیں متاثر کر رہی ہیں بلکہ اس سے ان کے اہلِ خانہ بھی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں جس کے بعد انہوں نے سائیکولوجیکل تھیراپی کی جانب رجوع کیا۔
کراچی کے نیوز کیمرا مین عمران علی فوٹیج بنانے کے لیے آگے آگے رہتے ہیں۔ ایک روز کراچی میں بے امنی کے دنوں میں وہ جلتی بس کا شاٹ اپنے کیمرے میں محفوظ کر رہے تھے کہ اس بس کا فیول ٹینک دھماکے سے پھٹ گیا جس کے نتیجے میں عمران علی شدید زخمی ہوئے۔
کئی ماہ زیرِ علاج رہنے کے بعد وہ پھر سے اس فیلڈ میں واپس آگئے لیکن اس واقعے کے بعد انہیں آگ کے خوف نے گھیر لیا۔ یہاں تک کہ وہ آج بھی اپنے گھر کا گیزر خود نہیں چلاتے۔
فیلڈ میں کام کرنے سے متعلق لاحق خوف اور خدشات کے حوالے سے عمران علی کہتے ہیں "آپ کو یہ ظاہر نہیں کرنا ہوتا کہ آپ اندر سے کتنے خوف زدہ ہیں بس آپ کو کام کرنا ہوتا ہے۔"
رات کو سوتے وقت بھی دھماکوں کی آواز سنائی دینے لگیں
کرائم رپورٹر احمر رحمٰن کا شب و روز لاشوں، زخمیوں، جرائم کی خبروں اور دھماکوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کراچی میں جب بے امنی عروج پر تھی اور تقریباً ہر روز دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کی خبریں عام تھیں تو اس دوران رپورٹنگ کرنے سے احمر کو ذہنی دباؤ کا سامنا رہا۔
احمر کے مطابق وہ ایک رات سو رہے تھے کہ اچانک انہوں نے اٹھ کر اپنی بیوی سے پوچھا کہ تم نے کہیں دھماکے کی آواز سنی؟ اُس نے کہا نہیں، تو انہوں نے اپنی بیوی کو کہا کہ انہیں ابھی ابھی زوردار دھماکے کی آواز آئی ہے جس پر بیوی نے کہا کہ آپ سو رہے تھے شاید آپ نے کوئی خواب دیکھا ہو۔
صحافی کے بقول اس واقعے کے بعد ان کے ساتھ ایک دو بار ایسا دوبارہ ہوا تو پھر انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں اور باس سے اس کا ذکر کیا۔ جس کے بعد سب نے انہیں چند روز آرام کرنے کے ساتھ ساتھ خبروں اور فون سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔
احمر کے بقول "میں اب بھی اگر ایسا محسوس کرتا ہوں تو کام سے بریک لے لیتا ہوں تاکہ بہتر محسوس کر سکوں۔"
گزشتہ دس برسوں سے سیاسی بیٹ کے ساتھ ساتھ تنازعات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی قسیم سعید نے حال ہی میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور طالبان کے کنٹرول کے دوران رپورٹنگ کی جس میں ان کا سامنا کافی بار ایسے حالات سے ہوا جس نے ان کی ذہنی صحت کو متاثر کیا۔
ان کے مطابق وہ افغانستان جانے سے قبل خود کو جس طرح کے حالات کے لیے تیار کر کے گئے تھے جب وہاں داخل ہوئے تو حالات یکسر مختلف تھے جس نے انہیں ذہنی دباؤ سے دوچار کیا۔
قسیم سعید کے مطابق رپورٹنگ کے دوران انہیں اس خوف اور اندیشوں نے بھی گھیرے رکھا کہ وہ جنگ زدہ علاقے میں ہیں جہاں وہ کسی پر اعتماد نہیں کرسکتے اور اگلے ہی لمحے کیا ہوجائے وہ نہیں جانتے۔
صحافی نے بتایا کہ جس چیز نے انہیں سب سے زیادہ متاثر کیا وہ افغانستان میں انسانی بحران تھا۔کابل میں لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے گھروں کا سامان فروخت کر رہے تھے۔
قسیم کے مطابق "لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بے حس اور سخت دل ہیں لیکن ہمیں بھی کبھی کبھار کوئی ایک فوٹیج یا تصویر اندر سے توڑ کر رکھ دیتی ہے۔"
شیما صدیقی فری لانس کام کرتی ہیں اور انہیں موبائل کے نیوز گروپس میں آنے والی حساس فوٹیجز اور خبروں نے اتنا متاثر کیا کہ ان کے لیے ایسے ڈرامے، فلمیں دیکھنا بھی قابل قبول نہ رہا جس میں کوئی پُر تشدد منظر دکھایا جا رہا ہو۔
شیما کے مطابق مسلسل ایک طرح کی خبریں آنا خاص کر جس میں خواتین پر تشدد ہورہا ہو، انہیں قتل کیا گیا ہو یا کسی جانور پر تشدد کیا گیا ہو، اس نے انہیں ذہنی طور پر بہت کمزور کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ جان بوجھ کر سافٹ اسٹوریز (کھانے پینے، سفر اورغیر حساس موضوع) پر کام کرنے لگی ہیں۔
شیما کے بقول "میں نے ایسی خبریں دیکھنا اور اسٹوریز پر کام کرنا چھوڑ دیا ہے جس میں میرا سامنا کسی پرتشدد کہانی سے ہو۔ اس لیے میں نے کاؤنسلنگ کی ضرورت محسوس کی تا کہ میں اپنے کام پر توجہ دے سکوں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
کاؤنسلنگ تھیراپی صحافیوں کے لیے کیوں ضروری ہے؟
پاکستان میں کسی بھی نیوز روم میں صحافیوں کو ذہنی دباؤ سے نکالنے کے لیے کوئی کاؤنسلنگ سروس میسر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وقت دباؤ کی کیفیت میں کام کرنے والے صحافی جو کچھ محسوس کر رہے ہوں وہ اس کا اظہار نہیں کر پاتے۔
دوسری جانب صحافتی اداروں میں نوکریوں کی کمی، اخبارات کی بندش، تنخواہوں میں کٹوتی اور تاخیر نے بھی میڈیا ورکرز پر منفی اثرات مرتب کیے۔ پاکستان میں جب میڈیا کا بحران شروع ہوا تو ان عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے سینٹر آف ایکسیلینس فار جرنلزم (سی ای جے) نے سن 2018 میں صحافیوں کے لیے مفت تھیراپی سیشن کرانے کی بنیاد ڈالی۔اس تھیراپی سیشن کے تحت اب تک 100سے زائد صحافی اس سہولت سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ یہاں موجود ماہر نفسیات ان کے مسائل کو جاننے اور اس کے حل کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
سی اے جے کے تھیراپی سیشنز میں حصہ لینے والے صحافیوں میں 45 فی صد گھبراہٹ اور بے چینی ، 22 فی صد ذہنی دباؤ ، 14 فی صد اعتماد میں کمی، 13 فی صد اسٹریس، چھ فی صد غصہ اور باقی 22 فی صد دیگر پریشانیوں اور مسائل کا شکار تھے۔
SEE ALSO: کیا پاکستانی صحافی اپنے ہی ملک میں گھٹن محسوس کر رہے ہیں؟ماہرِ نفسیات ڈاکٹر آشا بیدار کے مطابق اس وقت تھیراپی کے لیے آنے والے زیادہ تر صحافیوں کا مسئلہ نوکری ختم ہونے کا خوف اور تنخواہوں میں تاخیر تھا۔
ڈاکٹر آشا بیدار کا مزید کہنا ہے کہ صحافی، ڈاکٹر اور پولیس یہ کچھ ایسے پیشے ہیں جس سے وابستہ افراد جو دباؤ محسوس کر رہے ہوتے ہیں اس پر کسی کا دھیان نہیں ہوتا یہاں تک کہ یہ لوگ خود بھی اس کیفیت سمجھ نہیں پارہے ہوتے۔
صحافی نفسیاتی علاج سے کیوں گھبراتے ہیں؟
نیوز کیمرامین عمران علی کے مطابق کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ جس اسائنمنٹ پر جارہے ہوں اس بارے میں آپ کو پیشگی اطلاع ہوتی ہے کہ یہاں خطرہ ہے لیکن اس کے باوجود نیوز ٹیمیں وہاں کوریج کے لیے جاتی ہیں۔ کہاں کیا ہوجائے یہ خوف ہم اپنے اندر لیے چل رہے ہوتے ہیں۔
ان کے بقول بدقسمتی سے پاکستان میں اگر کوئی شخص اس بات کا اظہار بھی کر دے کہ اسے کوئی نفسیاتی دباؤ ہے تو اسے پاگل سمجھا جاتا ہے کہ یہ تو ماہرِ نفسیات کے پاس جا رہا ہے اب یہ کسی کام کے لائق نہیں۔ ان ہی رویوں کو دیکھ کروہ کبھی کسی تھیراپی یا کاؤنسلنگ کے لیے نہیں گئے۔
احمر رحمٰن بھی اس بات سے متفق ہیں کہ اگر اداروں میں یہ بات سامنے آجائے کہ فلاں صحافی کسی ذہنی یا نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب یہ کام نہیں کر سکتا۔
ڈاکٹر آشا کے مطابق یہ مسئلہ اب بھی پاکستان کے نیوز روم کے بیشتر صحافیوں کو تھیراپی کی جانب آنے سے روکتا ہے کیوں کہ یہ 'اسٹگما' ہی بہت بڑا ہے۔
تھیراپی سے کیا مثبت تبدیلی آ سکتی ہے؟
صحافی عاطف حسین کے مطابق جب تک ان کی تھیراپی جاری رہی انہوں نے سب سے چھپائے رکھا لیکن خود میں مثبت تبدیلیاں آنے کے بعد ان میں یہ حوصلہ پیدا ہوا کہ وہ اسے قبول کریں کہ انہیں اس کی ضرورت تھی بلکہ وہ مزید لوگوں کو بھی بتائیں کہ یہ ایک صحافی کے لیے کیوں ضروری ہے۔
شیما صدیقی کے مطابق جب انہوں نے کچھ ماہ یہ سیشنز لیے تو انہیں اپنا آپ پھر سے توانا اور پُر عزم محسوس ہونے لگا۔ انہیں یہ لگا کہ جن کہانیوں کو وہ صرف اس لیے نظر انداز کر رہی تھیں کہ ان میں تشدد کا عنصر نمایاں تھا وہ انہیں پھر سے بطور صحافی رپورٹ کرنے کو تیار ہوگئیں۔
SEE ALSO: معاشی مشکلات کے باعث پاکستانی صحافی ذہنی دباؤ میں کام کرنے پر مجبور ہیں: رپورٹڈاکٹر آشا بیدار کے مطابق ہر انسان کسی بھی صدمے یا خبر کا اثر لینے پر الگ الگ انداز سے متاثر ہوتا ہے یا اس سے ڈیل کرتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک تاثر ہے کہ اگر آپ صحافی ہیں تو آپ کو سخت ہونا چاہیے، اگر آپ اتنے ہی حساس ہیں تو اس فیلڈ میں آئے ہی کیوں؟
ان کے بقول یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ جب آپ کسی شعبے کا انتخاب کرتے ہیں تو اپنی صلاحیتوں کو دیکھ کر ہی کرتے ہیں لیکن ہم انسان بھی ہیں کوئی نہ کوئی اسٹریس آپ کو اثر انداز ہوتا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ اس کام کے لیے موزوں نہیں۔