پاکستان کی وفاقی حکومت نے مالیاتی ضمنی بل 2021 (منی بجٹ) قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے جسے آئندہ اجلاس میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا۔
مالیاتی ضمنی بجٹ کے آنے پر ملا جلا ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ عوام کو خدشہ ہے کہ منی بجٹ سے مہنگائی بڑھے گی جب کہ حکومتی رہنما یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے عام آدمی کے متاثر ہونے کی باتیں بے بنیاد ہیں۔
جمعرات کو ایوان میں منی بجٹ پیش کرنے پر حزبِ اختلاف نے احتجاج کیا جب کہ حکومتی رہنما اسے معاشی اصلاحات کی جانب اہم قدم قرار دیتے رہے۔
قومی اسمبلی میں منی بجٹ کو پیش کرنے کے بعد وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ منی بجٹ کے ذریعے 343 ارب روپے کے ٹیکس کی چھوٹ پر نظرِ ثانی کی گئی جس میں عام آدمی پر صرف دو ارب روپے کا ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد کہتے ہیں کہ ضمنی بجٹ میں عام آدمی کے استعمال کی چند اشیا پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ تمام اشیا پر 17 فی صد جی ایس ٹی لگائیں اور اگر کسی کو سہولت دینی ہے تو سبسڈی کے ذریعے دی جائے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس جمعے کو بغیر کسی کارروائی کے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا اور آئندہ اجلاس بلائے جانے پر منی بجٹ پر ووٹنگ کرائی جائے گی۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے حکومت اس بل کو حزبِ اختلاف کی مخالفت کے باوجود منظور کرانے میں کامیاب رہے گی کیوں کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے اتحادی جماعتوں کے اس حوالے سے تحفظات کو دور کر دیا ہے۔
کیا منی بجٹ سے مہنگائی بڑھے گی؟
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ منی بجٹ سے عام آدمی پر کم اثرات مرتب ہونے کے حکومتی دعوے اپنی جگہ ہیں البتہ ماہرین کے مطابق پہلے سے موجود مہنگائی سے متاثرہ افراد کی مشکلات مزید بڑھیں گی۔
ماہر معاشیات اور ٹیکس اصلاحات کی کمیٹی کے رکن اشفاق تولہ کہتے ہیں کہ جب کوئی ٹیکس لگایا جاتا ہے یا ٹیکس استثنیٰ کا خاتمہ ہوتا ہے تو کسی نہ کسی انداز میں عوام کی جیب سے پیسے نکالے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف ریسٹورنٹ کی بریڈ سے لے کر بیکری کی اشیا پر تین ارب روپے تک کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے جو کہ براہِ راست عام عوام کو متاثر کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کہتی ہے کہ وہ فارما سوٹیکل کے 160 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ کے خاتمے کے عوام پر اثرات مرتب نہ ہونے کے لیے ٹیکس ریفنڈز دے گی تاہم اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ عوام کو منتقل ہو سکے گا؟
اشفاق تولہ نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کو ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کے بجائے نئے ایریاز تلاش کر کے بھی کرسکتی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ زرعی انکم، ریٹیلر اور ہول سیلر پر ٹیکس لگا کر آئی ایم ایف کی شرائط پوری ہو سکتی ہیں اور با آسانی بجٹ خسارے میں خاصی کمی لائی جاسکتی ہے تاہم حکومت یہ اقدامات لینے کو تیار نہیں۔
ایف بی آر کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد کہتے ہیں کہ ضمنی بجٹ میں عوام پر دو ارب روپے کا بوجھ ڈالا گیا ہے تاہم اس سے کھانے پینے کی مقامی اشیاء مہنگی نہیں ہوں گے۔
ان کے مطابق گندم، آٹا، پھلوں اور دالوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا اور اس کے علاوہ مقامی تازہ مچھلی، گوشت، دودھ، دہی، کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپس کے پرزے، الیکٹرک وہیکلز کٹس اور خصوصی اقتصادی زونز کے پلانٹ اور مشینری، زرعی ٹریکٹرز، کھادوں، پیسٹی سائیڈز اور لنڈے کے کپڑوں اور جوتوں پر بھی کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ اس کے علاوہ درسی کتب اور اسٹیشنری آئٹمز ہر ٹیکس نہیں بڑھایا جا رہا۔
ماہر معاشیات اشفاق تولہ کہتے ہیں کہ حکومت پچھلی حکومتوں کے اقدامات کو تنقید کرتی رہی اور اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنے کے لیے معیشت کو درست انداز سے نہیں نمٹا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ اسی بنیاد پر حکومت کو معاشی ٹیم میں بار بار تبدیلیاں لانا پڑیں اور اسد عمر کے بعد حفیظ شیخ کے شکاگو ماڈل نے بھی کافی بگاڑ پیدا کیا جس کا موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ شرح سود میں اضافہ اور روپے کی قدر میں غیر معمولی کمی کے اقدامات نے معیشت کو نقصان پہنچایا۔
کیا حزب اختلاف منی بجٹ کو روک سکتی ہے؟
متحدہ حزبِ اختلاف نے حکومت کی جانب سے لائے جانے والے اس مالیاتی ترمیمی بل کو منی بجٹ قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ سے منظور نہ ہونے دینے کا اعلان کیا تھا۔
جمعرات کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جب منی بجٹ پیش کیا گیا تو حزبِ اختلاف کے اراکین نے احتجاج کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔
ایک موقع پر جب رکن اسمبلی شازیہ مری نے ووٹوں کی گنتی کو چیلنج کیا تو پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے حزبِ اختلاف کے اراکین جو بل کی مخالفت میں ووٹ دینے کے لیے اپنی نشستوں پر کھڑے تھے، انہیں بیٹھا دیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں آپس کے اختلافات کے سبب حکومت کے سامنے عوامی مفاد کے معاملات میں بھی مشکل کھڑی کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
تجزیہ نگار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت تو نااہل ہے ہی، حزب اختلاف بھی نااہل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے شروع ہونے والی حزبِ اختلاف تین سال ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی اور ایوانِ بالا میں اکثریت رکھنے کے باوجود حکومت کے سامنے کوئی مشکل صورت پیدا نہیں کر سکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے گزشتہ مشترکہ اجلاس میں بھی حزبِ اختلاف نے معمولی شور کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔
SEE ALSO: مالیاتی ضمنی بل قومی اسمبلی میں پیش، حکومت کن کن اشیا پر ٹیکس چھوٹ ختم کر رہی ہے؟سلیم بخاری کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط، جن کی عوامی سطح پر مخالفت پائی جاتی ہے، روکنے کے لیے اپوزیشن کا محض شور کافی نہیں تھا جس کی وجہ سے عام آدمی حکومت کے ساتھ حزبِ اختلاف سے بھی نالاں ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس میں جمعرات کو جب یہ بل ایوان میں پیش کیا گیا تھا۔ متحدہ حزبِ اختلاف کے اہم رہنما اجلاس میں شریک نہیں تھے۔
قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل اس اہم دن پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہے۔
حزبِ اختلاف کے مرکزی رہنماؤں کی قومی اسمبلی کے اہم اجلاس میں عدم شرکت کو مبصرین عوامی مسائل سے متعلق ان کی عدم دلچسپی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف اس وجہ سے بھی شائد سخت اپوزیشن نہیں کر سکی کہ زیادہ تر رہنما مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ اپنی جان بخشی میں لگے رہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے سیاسی قائدین پر بنائے گئے مقدمات کی وجہ سے حزبِ اختلاف اپنا اصل کردار نبھانے میں ناکام رہی ہے۔
منی بجٹ میں کیا مہنگا ہوا؟
دستاویزات کے مطابق منی بجٹ میں روزمرہ استعمال کے 42 اشیا پر ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کیے جانے کی تجویز ہے جس میں مقامی سطح پر فروخت ہونے والی اشیا، بیکری آئٹمز، ڈبل روٹی اور مٹھائی شامل ہیں جب کہ ساشے میں فروخت ہونے والی اشیا کا ٹیکس 8 سے بڑھا کر 17 فی صد کرنے کی تجویز ہے۔
پراسس کیے ہوئے دودھ پر ٹیکس 10 سے 17 فی صد، پیکنگ میں دہی، پنیر، مکھن، دیسی گھی اور بالائی پر ٹیکس 10 سے بڑھا کر17 فی صد کرنے کی تجویز ہے۔
بچوں کے دودھ پر ٹیکس صفر سے بڑھا کر 17 فی صد عائد کرنے کی تجویز ہے۔
زرعی بیجوں، پودوں، آلات اور کیمیکل پر 5 سے 17 فی صد، ادویات کے خام مال پر 17 فی صد، درآمدی سبزیوں پر 10 فی صد اور پیکنگ میں فروخت ہونے والے مصالحوں پر 17 فی صد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔
مختلف اقسام کے پلانٹس اور مشینری پر پانچ سے 10 فی صد ٹیکس کی تجویز ہے جب کہ سونے چاندی کے زیورات پر ایک سے 17 فی صد ٹیکس لاگو ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کے علاوہ 850 سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ٹیکس میں بھی 17 فی صد اضافے جب کہ گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس بھی دگنی کرنے کی تجویز ہے۔
اسی طرح درآمدی موبائل فون پر بھی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے اور 200 سے 500 ڈالر کی قیمت کے درآمد شدہ موبائل فونز پر 17 فی صد ویلیو ایڈڈ ٹیکس لگایا جائے گا۔
اس کے علاوہ موبائل فون کمپنیوں کی سروسز پر ایڈوانس ٹیکس میں 10 سے 15 فی صد اضافے کی تجویز ہے۔
غیر ملکی ٹی وی سیریلز پر 10 لاکھ روپے فی قسط، ڈرامے پر 30 لاکھ روپے جب کہ اشتہارات میں غیر ملکی اداکاروں کو دکھانے پر پانچ لاکھ روپے فی سیکنڈ ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق اس کا مقصد مقامی صنعت کے فن کاروں کو مواقع دینا ہے۔
ایف بی آر کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیکسوں کی جتنی مراعات ہیں، اس حساب سے پاکستان کو دنیا کا بڑا صنعتی ملک ہونا چاہیے مگر مراعات کے باوجود پاکستان بڑا صنعتی ملک نہیں ہے اور اسی وجہ سے آئی ایم ایف کہتا ہے کہ جب ایسا نہیں ہے تو پھر ٹیکسوں میں تفریق ختم کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ مالیاتی ترمیمی بل معاشی اصلاحات اور معیشت کو دستاویزی صورت میں لانے کے لیے ضروری تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ حکومت کا غیر مقبول فیصلہ ہے جس کی سیاسی قیمت چکانا پڑے گی۔