پاکستان میں ویب سائٹس کی بندش وزارتِ آئی ٹی کی اجازت سے مشروط

پاکستان میں قابلِ اعتراض مواد یا دیگر وجوہات کی بنا پر ویب سائٹس بلاک کرنے کو وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اجازت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔

یہ فیصلہ حال ہی میں 'وکی پیڈیا' کی اچانک بندش اور پھر وزیرِ اعظم شہباز شریف کی مداخلت پر اسے کھولنے کے حکم کے بعد بنائی جانے والی وزارتی کمیٹی نے کیا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ کسی بھی ویب سائٹ کی اچانک بندش کے عمل سے ملک کی ترقی کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور عام آدمی کی ٹیکنالوجی تک رسائی میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

پانچ وزرا پر مشتمل یہ کمیٹی وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر وکی پیڈیا کی بندش کے بعد قائم کی گئی تھی ، اس سے قبل دو روز تک وکی پیڈیا سروس کو بحال کر دیا تھا۔

وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونی کیشن سید امین الحق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کسی بھی ویب سائٹ، موبائل ایپ یا سوشل میڈیا سائٹس کی اچانک بندش کے وہ خلاف ہیں۔ حالیہ دنوں میں وکی پیڈیا کی بندش اس کی تازہ مثال ہے۔

امین الحق نے کہا کہ جمعرات کو وزیرِ اعظم کی ہدایت پر قائم کردہ وزارتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی پر واضح کیا گیا ہے کہ اب کسی بھی ویب سائٹ یا ایپلی کیشن کی بندش نہیں کی جائے گی بلکہ ایسے معاملے پر وزارت آئی ٹی سے مشاورت لازمی قرار دی گئی ہے۔

سید امین الحق کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں یوٹیوب، ٹک ٹاک اور پب جی سمیت کئی ایپس بند کی گئیں جنہیں پھر سے کھولنا پڑا، ایسی صورت میں ضرورت ہی نہیں کہ بندش جیسا سخت فیصلہ ابتدا میں ہی لیا جائے۔

پاکستان میں 2013 میں قابلِ اعتراض مواد کو بنیاد بنا کر یوٹیوب سروس بھی بند کر دی گئی تھی جسے 2016 میں بحال کیا گیا تھا۔

اُنہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اپنی روایات، ثقافت اور ملکی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے اسی لیے سوشل میڈیا رولز، پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن پالیسی پر کام کیا گیا تاکہ نہ صرف پاکستانی صارفین کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے بلکہ ملکی مفادات اور مذہبی منافرت و نفرت انگیز مواد کی روک تھام کی جاسکے۔

اس اجلاس میں وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے پی ٹی اے سے کہا ہے کہ اگر کسی جانب سے کسی ویب سائٹ کی بندش کے لیے دباؤ آئے تو وزارتِ قانون و انصاف سے اس حوالے سے مشاورت طلب کی جاسکتی ہے۔

وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر کا بھی کہنا تھا کہ لوگوں کے پاس کسی بھی بلاکڈ ویب سائٹ کو دیکھنے کے کئی ذرائع ہیں ایسے میں ویب سائٹ کو بلاک کرنے کے بجائے متعلقہ فورم سے بات چیت کی جانی چاہیے۔

سید امین الحق نے کہا کہ وکی پیڈیا کی بندش پر سب سے پہلے انہوں نے وزیرِ اعظم سے درخواست کی کہ اس طرح کی بندش پاکستانی صارفین کے حقوق کی پامالی ہے۔ خوشی ہے کہ وزیر اعظم نے اس معاملے میں فوری نوٹس لیا۔

انہوں نے کہا کہ عوام میں بھی شعور کی بیداری ضروری ہے کہ وہ غیر اخلاقی ویب سائٹس اور مذہبی منافرت پر مبنی مواد کی نہ تشہیر کریں اور نہ ایسی ویب سائٹس یا ایپس کا وزٹ کریں۔

اس فیصلے پر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک ماہرین نے بھی مثبت ردِعمل دیا اور کہا کہ اس فیصلے سے پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں بہتری آسکے گی۔

سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عطاالرحمن کہتے ہیں کہ ویب سائٹس میں بہت سی معلومات ہوتی ہیں جو بہت سے لوگوں کے لیے ضروری ہیں۔ اگر کسی ویب سائٹ پر قابلِ اعتراض حصے ہیں تو انہیں ٹیکنالوجی کے ذریعے بند کر دیا جانا چاہیے۔پوری ویب سائٹ بند کرنا مناسب نہیں ہے۔

ماضی میں یوٹیوب اور ایسی ہی ویب سائٹس کی بندش کے حوالے سے ڈاکٹر عطا الرحمن کا کہنا تھا کہ بلاک کرنے والے حکام بہت محدود سوچ کے ساتھ سوچتے ہیں، اسکول سے کالج تک طلبہ انٹرنیٹ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، کسی بھی ویب سائٹ کو اچانک بند کرنے سے انہیں نقصان ہوتا ہے۔

بائٹس فار آل کے ہارون بلوچ کہتے ہیں پی ٹی اے کو سائبر کرائم قانون کے تحت بہت زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں بھی عدالتوں کو بھی مداخلت کرنی چاہیے کیوں کہ اس سے آزادی اظہار پر بھی قدغن لگتی ہے۔

ہارون بلوچ کے بقول پی ٹی اے نے 2016 کے بعد ایسے کئی فیصلے کیے اور عوام کو معلومات سے دُور رکھا۔ لیکن یہ وزارتی فورم ایک اچھا فورم ہے کیوں کہ اس سے یہ تاثر ملے گا کہ اس پابندی کے فیصلے اب پارلیمنٹ کرے گی۔

ہارون بلوچ نے کہا کہ وکی پیڈیا پوری دنیا میں سب سے بڑا معلومات کا ذخیرہ ہے لیکن ایک آرٹیکل کی وجہ سے پورا پلیٹ فارم بند کردیا گیا۔ اس کی بندش سے لوگوں کو بہت زیادہ نقصانات اٹھانا پڑے، ماضی میں یوٹیوب کو بند کیا گیا تو اس سے صرف معلومات تک رسائی نہیں بلکہ لاکھوں افراد کی کمائی کا ذریعہ بھی بند کیا گیا۔ اس سے کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ صرف استعمال کرنے والوں کا نقصان نہیں بلکہ حکومت کا اپنا بھی نقصان ہے۔

ہارون بلوچ نے کہا کہ اس طرح کے فیصلوں سے پاکستان کے امیج کو بھی نقصان پہنچتا ہے، اس سے پاکستان میں میں موجود جمہوریت کی نفی ہوتی ہے اور عالمی سطح پر پاکستان میں ڈکٹیٹر شپ کا تاثر جاتا ہے۔