اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اگر ریاست لاپتا افراد کو بازیاب نہیں کرا سکتی تو عدالت کو بتا دے کہ سوری ہم یہ نہیں کر سکتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ لوگوں کے لاپتا ہونے کا ذمے دار ملک کا چیف ایگزیکٹو ہی ہوتا ہے۔
منگل کو صحافی مدثر نارو اور اسلام آباد کی یونیورسٹی سے دو طلبہ کے لاپتا ہونے کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کو جس نے بھی لاپتا کیا وہ حکومتی منشا کے بغیر نہیں ہو سکتا، اگر ایسا نہ ہوتا تو حکومت کسی کے خلاف کارروائی تو کرتی۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ ملک کے کسی چیف ایگزیکٹو نے کبھی کسی کو لاپتا کرنے کا نہیں کہا۔ نہ موجودہ چیف ایگزیکٹو اور نہ ہی کسی سابقہ نے کسی شخص کو اٹھانے کا کہا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ریاست مانتی ہے کہ دو بچے جبری طور پر لاپتا ہیں تو انہیں بازیاب کس نے کرانا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ تاثر ختم کریں کہ کوئی کچھ نہیں کر رہا، جن دو بچوں کا حکومت نے مانا کہ جبری لاپتا ہیں ان ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیں۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو عدالت آ کر بیان دیں کہ سوری ہم نہیں کر سکتے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ مدثر نارو کی فیملی کی وزیرِ اعظم سے بھی ملاقات کرائی ہے، ہم نے بہت کاوشیں کیں لیکن مدثر نارو کی بازیابی میں کامیابی نہیں مل سکی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس عدالت نے چیف ایگزیکٹوز سے متعلق کچھ آبزرویشنز دی تھیں، میں سمجھتا ہوں ان آبزرویشنز کا اطلاق موجودہ چیف ایگزیکٹو پر نہیں ہوتا۔
گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عدالت میں کہا تھا کہ لوگوں کے لاپتا ہو جانے کا ذمہ دار چیف ایگزیکٹو ہی ہوتا ہے۔ اُنہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ یہاں سابق چیف ایگزیکٹو لوگوں کے اٹھائے جانے کا فخر سے کتابیں لکھ کر کریڈٹ لیتے ہیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد سب صوفی بن جاتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لوگ لاپتا ہوتے رہے ہیں جن میں سب جبری گمشدگیاں نہیں تھیں۔ کچھ لوگ جہاد پر باہر گئے، حکومت کا ارادہ ہے لاپتا افراد کے خاندانوں کے لیے فنڈ قائم کیا جائے، صوبائی حکومتوں سے بھی فنڈز قائم کرنے کی درخواست کی جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں یہاں صرف موجودہ حکومت کی نمائندگی نہیں کروں گا۔ میں گزشتہ حکومتوں کی جانب سے بھی بولنا چاہوں گا، کسی بھی وفاقی حکومت کی پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو اغوا کیا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندر سپاہیوں کو اٹھا کر سر قلم کیے جاتے رہے۔ سپاہیوں کے سر چوک چوراہوں میں لٹکائے گئے جنگ وہاں سے چلی۔ ملک میں ایک جنگ جاری تھی وہ پس منظر یاد رکھنا ہو گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس پر اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اٹارنی جنرل صاحب وفاقی حکومت نے اب تک کیا کیا ہے؟ ایک تاثر ہے کہ لاپتا افراد سے متعلق کچھ نہیں کیا جا رہا، لاپتا افراد کمیشن کیا اس تاثر کو زائل کرنے میں کامیاب ہوا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاپتا افراد کا سراغ لگانا یا شناخت کرنا آسان نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تاثر جب یہ ہو کہ ریاست اغوا کر رہی ہے تو پھر کون ذمہ دار ہے؟
اس موقع پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے لاپتا دو طالب علم بھائیوں کے والد عدالت میں کھڑے ہوئے کہا کہ کالی وردی والے لوگوں نے میرے بیٹوں کو اٹھایا، لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ نے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا، کمیشن نے مکمل کارروائی کر کے اسے جبری گمشدگی کا ہی کیس قرار دیا ہے۔
اس پر عدالت نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب پھر بتائیں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہوئی؟
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاپتا افراد کمیشن کو آگے بھی کارروائی کرنی چاہیے تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاپتا افراد کمیشن کا کام صرف ایف آئی آر درج کرانا رہ گیا؟ دارالحکومت سے دن دیہاڑے سب کے سامنے بچوں کو اٹھایا گیا، اب بتائیں ریاست کے ساتھ عدالت کیا کرے؟
اٹارنی جنرل اس عدالتی سوال پر خاموش ہو گئے جس پر چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب جواب دیں ناں؟
اس پر اٹارنی جنرل نے بے بسی کے انداز میں کہا کہ میرے پاس جواب ہوتا تو کہتا شام کو ذمہ دار جیل میں ہوں گے، حکومت کی جانب سے یہی کہوں گا ہم ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایس ای سی پی کا افسر اٹھایا گیا اس کی تحقیقات کا کیا بنا؟ ایک صحافی کو اٹھایا گیا اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا کیا بنا؟ کچھ بھی نہیں بنا ناں؟ یہی بے حسی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یونیفارم میں صحافی کو اٹھانے والوں کی فوٹیج موجود ہے، اگر انہیں بھی پکڑا نہیں گیا حکومت اس عدالت کو جواب دہ ہے۔ ایک لاپتا شخص واپس آ کر کہتا ہے شمالی علاقہ جات گیا تھا، اٹارنی جنرل صاحب کیا یہ ماننے والی بات ہے؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ میں یہی کہہ سکتا ہوں چیف ایگزیکٹو نے کبھی ایسا کرنے کا نہیں کہا، نہ موجودہ چیف ایگزیکٹو نہ کسی سابقہ نے کسی کو اٹھانے کا کہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب کیا کریں سب ذمہ داروں کو طلب کریں یا کیا کریں؟ یہ عدالت آئین کو دیکھے یا کیا کرے اب بتائیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں کیا کہوں، اب کسی کے پاس کوئی بہتر آئیڈیا ہے تو بتائے۔
اس موقع پر انسانی حقوق کی وکیل ایمان زینب مزاری نے کہا کہ ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب سوال ریاست کی ناکامی کا ہے، جن دو بچوں کا جے آئی ٹی کہہ چکی کہ یہ جبری گمشدگی ہے وہ ٹیسٹ کیس ہے۔ دارالحکومت میں وزیرِ اعظم، کابینہ اور ایک آئی جی موجود ہیں۔ ریاست خود مان بھی رہی ہے یہ جبری گمشدگی ہے، اب اس کیس کی تفتیش نہ ہونا ریاست کی ناکامی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انگلی وفاقی حکومت اور چیف ایگزیکٹو پر ہی جا کر ٹھہرتی ہے، مسلح افواج بھی کوئی کام حکومتی منظوری کے بغیر نہیں کر سکتیں۔ اب ہم کیا کریں سب کو طلب کرنے سے کیا حل نکلے گا؟ اس عدالت کو مسئلے کا حل بتائیں۔
لاپتا افراد کیسز کی پیروی کرنے والے کرنل (ر) انعام الرحیم بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ لاپتا افراد کے کل کیسز 8279 ہیں یہ پریس میں بھی رپورٹ ہو چکا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کمیشن نے ان دو بھائیوں کا ہی نہیں بلکہ حزب التحریر کے ساتھ تعلق کے الزام میں غائب ہونے والے نوید بٹ اور عمران خان نامی شہریوں کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری کیے لیکن آج تک ان کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ایسے کیسز ہیں جن سے ریاست کو ہل جانا چاہیے، ریاست مانتی ہے دو بچے جبری لاپتا ہیں تو انہیں بازیاب کس نے کرانا ہے؟ کسی کے پاس کوئی حل ہے تو بتائیں میں ہم وہی کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر موجودہ چیف ائگزیکٹو نے کارروائی نہیں کی تو میں جواب دہ ہوں۔
اس پر عدالت نے کہا کہ سارے چیف ایگزیکٹوز کو ذمہ دار قرار دینا ہو گا، ریاست کچھ نہیں کرتی تو کہنا مناسب ہو گا کہ لوگوں کو اُٹھانا ریاست کی پالیسی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان ہوں، نوازشریف یا گیلانی کسی کی یہ پالیسی نہیں تھی، ان میں سے کوئی بھی یہ پالیسی نہیں رکھتا تھا کہ لوگ غائب کریں۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہیں یہ ان کی پالیسی ہی نہ رہی ہو، ان میں سے کسی نے لاپتا افراد کیس میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ اُنہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک چیف ایگزیکٹو نے کتاب میں لکھا کہ اس نے بندے اغوا کرائے، وہ چیف ایگزیکٹو اشتہاری ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آخری تین منتخب وزرائے اعظم کی بات کرتا ہوں، ان وزرائے اعظم کی وہ پالیسی نہیں تھی جو کتاب والے صاحب کی تھی۔
لاپتا افراد کے وکیل کرنل (ر) انعام الرحیم نے کہا کہ حراستی مراکز کا دورہ کرایا جائے تو لوگ بازیاب ہو سکتے ہیں۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حراستی مراکز میں سب شناخت شدہ لوگ ہیں فیملیز ملتی بھی ہیں پھر بھی اگر دورہ کرنے سے مدد ملتی ہے تو ہم تیار ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو جبری گمشدگیوں پر موثر اقدامات کا حکم دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل تین ہفتوں میں مطمئن کریں کہ حکومت کی طرف سے کیا اقدامات کیے گئے۔