|
حالیہ ہفتوں میں خطے میں سرگرم عسکریت گروہوں کی جانب سے پاکستان بھر میں دہشت گردی کی کارروائی کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔
پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں حال ہی میں ایک خود کش حملے میں چین کے پانچ انجینئروں سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے۔
ایسے حملوں میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) عموماً مشتبہ ٹھہرتی ہے۔ تاہم بدھ کو جاری بیان میں ٹی ٹی پی نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی۔
قبل ازیں مارچ کے تیسرے ہفتے میں پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں دو خود کش حملوں میں نو پاکستانی فوجی اہل کار ہلاک ہوئے تھے۔
علاوہ ازیں بلوچستان میں بحیرہ عرب کے نزدیک گوادر میں پاکستانی بحریہ کے اڈے اور پورٹ کمپلیکس پر حملہ کیا گیا تھا۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ اس حملے میں اس کے دو فوجی اور 14 عسکریت پسند مارے گئے تھے جب کہ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
SEE ALSO: پاکستان کے شمال میں عسکریت پسندی کی وجوہات کیا ہیں؟عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب خطے میں سب سے زیادہ سرگرم دہشت گرد گروپ داعش خراسان کو امریکہ نے ایک ہفتے قبل ماسکو میں ایک میوزک کنسرٹ پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا جس میں 140 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم ’سٹیمسن سینٹر‘ میں جنوبی ایشیائی امور کی سینئر فیلو اور ڈائریکٹر ایلزبتھ تھریلکلڈ کہتی ہیں کہ حملوں میں حالیہ اضافہ گہری تشویش کا باعث ہے کیوں کہ یہ عسکریت پسندوں کے طریقۂ کار اور حکمتِ عملی میں نئے انداز کو ظاہر کرتے ہیں۔
جنگجو گروپ اور ان کے مقاصد
داعش خراسان اس وقت پورے خطے میں دہشت کی موجودہ لہر کی قیادت کر رہی ہے۔
اس گروپ کو 2015 میں پاکستانی طالبان کے ناراض اراکین نے تشکیل دیا تھا اور یہ گروپ خود کو داعش کی ایک شاخ قرار دیتا ہے جسے وہ خراسان کہتے ہیں۔ خراسان میں افغانستان، پاکستان، ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان اور ایران کے کچھ حصوں پر مشتمل ایک تاریخی خطے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
داعش خراسان خطے میں ان علاقوں میں جہاں اس کا اثر ہے، سلفی مسلک کو نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
وہ اہلِ تشیع کے خلاف ہےجب کہ حالیہ برسوں میں اس نے پاکستان اور افغانستان میں اہلِ تشیع پر حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔
SEE ALSO: کیا افغان طالبان پاکستانی فوج کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟گزشتہ برس اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ خطے میں داعش خراسان کے جنگجوؤں کی تعداد چار سے چھ ہزار کے درمیان ہے۔
پاکستان کے ایک پشتون صحافی سید فخر کاکاخیل کے مطابق داعش خراسان، طالبان کے ناراض عسکریت پسندوں، خطے کے دوسرے ملکوں میں سرگرم عسکریت پسندوں کے ناراض ارکان اور سلفی نظریات سے متاثرہ افراد کو اپنی جانب راغب کر رہی ہے۔
داعش خراسان نے ماسکو حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ لیکن گزشتہ پیر کے روز پشتو میں جاری کردہ بیان میں حملہ آوروں کی تعریف کی گئی۔ 30 صفحات پر مشتمل یہ بیان افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے خلاف ایک شدید بیان تھا جس میں امریکہ، روس اور دیگر ممالک سے تعلقات رکھنے پر ان کی سرزنش کی گئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگست 2021 میں افغانستان سے امریکہ کے زیر قیادت نیٹو افواج کے انخلا کے بعد سے ٹی ٹی پی اپنی حکمتِ عملی، تیکنیک اور ہتھیاروں کے معاملے میں زیادہ ہوشیار ہو گئی ہے۔
رواں سال کے اوائل میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ القاعدہ ٹی ٹی پی کی مدد کے لیے جو امریکہ کا نامزد کردہ دہشت گروہ ہے، خود کش بمباروں کی تربیت کر رہی ہے۔
رپورٹ میں عسکریت پسند گروہوں کے بارے میں تفصیلات دینے کے بعد کہا گیا کہ بعض تجزیہ کار اسلام پسند جنگجوؤں کو مختلف مالک میں ان کی موجودگی اور ان کی زیادہ تعداد کے سبب انہیں علاقائی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
ایک سینئر ماہر میر کا کہنا ہے کہ جہاں تک بلوچ عسکریت پسندوں کا تعلق ہے، وہ کئی برسوں سے چینی مفادات کو ہدف بنانے کی کوشش کر تے رہے ہیں اور وہ اس سے باز رہنے کے موڈ میں بھی نہیں ہیں۔
ماہر میر کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پاکستان، ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسند دونوں کے خطرے کو کم کرنے کے لیے شاید افغان طالبان پر دباؤ ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔