رپورٹوں کے مطابق، ہفتہ کو جامشورو یونیورسٹی میں طلباو طالبات سے خطاب میں پیر مظہر الحق نے کہا تھا کہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے خلاف’ آئینی دیوار بنوں گا‘
سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام میں رکاوٹ بننے سے متعلق صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہرالحق کے بیان پر متحدہ قومی موومنٹ کا سخت ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ اتوار کو کراچی سمیت سندھ کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں۔
رپورٹوں کے مطابق، ہفتہ کو جامشورو یونیورسٹی میں طلباو طالبات سے خطاب میں پیر مظہر الحق نے کہا تھا کہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے خلاف، بقول اُن کے، آئینی دیوار بنوں گا۔ اتوار کو اس بیان پر سندھ کی دوسری بڑی جماعت اور چند روز پہلے تک پیپلزپارٹی کی اتحادی ایم کیو ایم کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا۔
کراچی میں اتوار کو ایم کیو ایم کے زیر اہتمام پریس کلب کے باہر بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی، عہدیداران اور کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر فاروق ستار نے پیر مظہرالحق کے بیان پر کڑی تنقید کی اور اسے ’تعلیم دشمنی‘ قرار دیا۔
فاروق ستار نے دھمکی دی کہ پیر کو صوبائی اسمبلی میں حیدرآباد یونیورسٹی کے قیام کا بل نہ آیا تو صوبائی اسمبلی کی جانب احتجاجی مارچ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں سات یونیورسٹیاں بنائیں گے۔ فاروق ستار کے بقول پیرمظہر کے بیان سے پیپلز پارٹی کاچہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔
حیدرآباد میں شٹرڈاوٴن
بتایا گیا ہے کہ حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے تحت مکمل شٹرڈاوٴن ہڑتال رہی۔ مشتعل افراد نے کئی مقامات پر ٹائر نذر آتش کر کے سڑکوں پر ٹریفک بھی معطل کردی۔ حیدر آباد پریس کلب پر مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں متحدہ کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور کارکنان سمیت تعداد شریک ہوئی۔ لاڑکانہ، جامشور، نوابشاہ، سانگھڑ، کھپرو، ٹنڈو آدم اور شہدادپور سمیت دیگر شہروں میں مظاہرے بھی کیے گئے۔
سندھ کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے دادو میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ میرے بیان کو ’توڑ موڑ کر پیش کیا گیا‘، حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد میں بھی یونیورسٹی قائم کرنے کی منظوری کیلئے بل آخری مراحل میں ہے۔ بقول پیر مظہر کے، کچھ سازشی عناصر نہیں چاہتے کہ متحدہ اور پیپلزپارٹی کی مفاہمت کی پالیسی جاری رہے۔ ’ہماری کوشش ہے کہ ہم سے ناراض ہونے والے اتحادی متحدہ کو منا کر واپس لے آئیں‘۔
اُنہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحاد میں گورنر عشرت العباد کا اہم کردار رہا ہے جس کو ہم جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے اپوزیشن میں آنے کے بعد پیر مظہرالحق کا بیان پہلا ایشو ہے جس پر ایم کیو ایم نے سخت رد عمل ظاہر کیا اور وہ پیپلزپارٹی پر کڑی تنقید کر رہی ہے۔
’مک مکا؟‘
مبصرین کے مطابق سندھ میں حالیہ احتجاج اس تاثر کی نفی کرتا ہے کہ ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کی مرضی سے اپوزیشن بینچوں میں بیٹھی ہے۔ حریف جماعتیں یہ الزام عائد کر رہی ہیں کہ ایم کیو ایم کا اپوزیشن میں آنا دونوں جماعتوں کا ’مک مکا‘ ہے اور یہ انتخابی حکمت عملی کا نتیجہ ہے، جس کی سب سے بڑی مثال یہ دی جاتی ہے کہ ایم کیو ایم کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت تاحال اپنے عہدے پر برقرار ہیں۔
حریف جماعتوں کی جانب سے الزام لگایا جارہا ہے کہ متحدہ کے اپوزیشن میں آنے سے ایک جانب تو دونوں جماعتیں اپنی مرضی کا سندھ سے نگراں وزیراعلیٰ بنوائیں گی، جبکہ دوسری طرف دونوں جماعتوں کے اتحاد سے ان کے جو رہنما اور کارکنان ناراض تھے وہ بھی مان جائیں گے۔
رپورٹوں کے مطابق، ہفتہ کو جامشورو یونیورسٹی میں طلباو طالبات سے خطاب میں پیر مظہر الحق نے کہا تھا کہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے خلاف، بقول اُن کے، آئینی دیوار بنوں گا۔ اتوار کو اس بیان پر سندھ کی دوسری بڑی جماعت اور چند روز پہلے تک پیپلزپارٹی کی اتحادی ایم کیو ایم کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا۔
کراچی میں اتوار کو ایم کیو ایم کے زیر اہتمام پریس کلب کے باہر بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی، عہدیداران اور کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر فاروق ستار نے پیر مظہرالحق کے بیان پر کڑی تنقید کی اور اسے ’تعلیم دشمنی‘ قرار دیا۔
فاروق ستار نے دھمکی دی کہ پیر کو صوبائی اسمبلی میں حیدرآباد یونیورسٹی کے قیام کا بل نہ آیا تو صوبائی اسمبلی کی جانب احتجاجی مارچ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں سات یونیورسٹیاں بنائیں گے۔ فاروق ستار کے بقول پیرمظہر کے بیان سے پیپلز پارٹی کاچہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔
حیدرآباد میں شٹرڈاوٴن
بتایا گیا ہے کہ حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے تحت مکمل شٹرڈاوٴن ہڑتال رہی۔ مشتعل افراد نے کئی مقامات پر ٹائر نذر آتش کر کے سڑکوں پر ٹریفک بھی معطل کردی۔ حیدر آباد پریس کلب پر مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں متحدہ کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور کارکنان سمیت تعداد شریک ہوئی۔ لاڑکانہ، جامشور، نوابشاہ، سانگھڑ، کھپرو، ٹنڈو آدم اور شہدادپور سمیت دیگر شہروں میں مظاہرے بھی کیے گئے۔
سندھ کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے دادو میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ میرے بیان کو ’توڑ موڑ کر پیش کیا گیا‘، حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد میں بھی یونیورسٹی قائم کرنے کی منظوری کیلئے بل آخری مراحل میں ہے۔ بقول پیر مظہر کے، کچھ سازشی عناصر نہیں چاہتے کہ متحدہ اور پیپلزپارٹی کی مفاہمت کی پالیسی جاری رہے۔ ’ہماری کوشش ہے کہ ہم سے ناراض ہونے والے اتحادی متحدہ کو منا کر واپس لے آئیں‘۔
اُنہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحاد میں گورنر عشرت العباد کا اہم کردار رہا ہے جس کو ہم جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے اپوزیشن میں آنے کے بعد پیر مظہرالحق کا بیان پہلا ایشو ہے جس پر ایم کیو ایم نے سخت رد عمل ظاہر کیا اور وہ پیپلزپارٹی پر کڑی تنقید کر رہی ہے۔
’مک مکا؟‘
مبصرین کے مطابق سندھ میں حالیہ احتجاج اس تاثر کی نفی کرتا ہے کہ ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کی مرضی سے اپوزیشن بینچوں میں بیٹھی ہے۔ حریف جماعتیں یہ الزام عائد کر رہی ہیں کہ ایم کیو ایم کا اپوزیشن میں آنا دونوں جماعتوں کا ’مک مکا‘ ہے اور یہ انتخابی حکمت عملی کا نتیجہ ہے، جس کی سب سے بڑی مثال یہ دی جاتی ہے کہ ایم کیو ایم کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت تاحال اپنے عہدے پر برقرار ہیں۔
حریف جماعتوں کی جانب سے الزام لگایا جارہا ہے کہ متحدہ کے اپوزیشن میں آنے سے ایک جانب تو دونوں جماعتیں اپنی مرضی کا سندھ سے نگراں وزیراعلیٰ بنوائیں گی، جبکہ دوسری طرف دونوں جماعتوں کے اتحاد سے ان کے جو رہنما اور کارکنان ناراض تھے وہ بھی مان جائیں گے۔