ایم کیو ایم کے رہنما رضا ہارون کے بقول شہر کے وسیع تر مفاد اور تاجروں کی اپیل پر ان کی جماعت ہڑتال کی کال واپس لے رہی ہے لیکن احتجاجی تحریک جاری رکھی جائے گی
کراچی —
متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے عباس ٹائون بم دھماکے کے ذمہ داران کی عدم گرفتاری کے خلاف کراچی میں غیر معینہ مدت تک ہڑتال کا اعلان چند گھنٹے بعد واپس لے لیا ہے۔
ہڑتال کی کال واپس لینے کے فیصلے کا اعلان متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رکن رضا ہارون نے کراچی میں رات آٹھ بجے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں کیا۔
رضا ہارون کا کہنا تھا کہ شہر کے وسیع تر مفاد اور تاجروں کی اپیل پرہڑتال کی کال واپس لی گئی ہے تاہم ان کی جماعت دہشت گردوں کی گرفتاری کے مطالبے پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاجر اور صنعت کار حکومت کو بھی اس کی ذمے داری کا احساس دلائیں۔
پریس کانفرنس میں رضا ہارون کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کراچی میں قیام امن اور دہشت گردوں کی گرفتاری اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کارروائی کے لیے ہر سطح پر پر امن احتجاج جاری رکھے گی۔
اس سے قبل بدھ کی شام چار بجے بھی رضا ہارون نے ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے سانحہ عباس ٹاوٴن کے ملزمان کی گرفتاری تک شہریوں سے رضاکارانہ طور پر کاروبار بند رکھنے کی اپیل کی تھی۔
ہڑتال کے اعلان سے پیشتر کراچی کے مختلف علاقوں میں شدید فائرنگ شروع ہوگئی تھی جس سے کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا تھا۔
بعد ازاں فائرنگ کا سلسلہ صوبہ سندھ کے دیگر شہری علاقوں بشمول حیدرآباد، نواب شاہ، میرپورخاص اور سکھر تک پھیل گیا تھا جہاں مسلح افراد نے کاروباری مراکز اور بازار بند کرادیے تھے۔
متحدہ کے اعلان سے قبل ہی کراچی کی تمام سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہوگئی تھی اور دفاتر اور دیگر مقامات سے گھر واپس جانے والے لاکھوں افراد کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
لاکھوں افراد کے ایک ساتھ سڑک پر آجانے سے شہر کے مختلف علاقوں - ایم اے جناح روڈ، شاہراہِ فیصل، آئی آئی چندریگرروڈ، گلستان جوہر، شرف آباد، اور طارق روڈ سمیت کئی دیگر علاقوں میں کئی گھنٹے تک ٹریفک جام رہا۔
مختلف علاقوں میں فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کے بعد شہر کے تمام پارک اور دیگر پبلک مقامات پر ویرانی چھاگئی۔
ہنگامہ آرائی کے باعث شہر کے تمام پیٹرول پمپ بھی بند ہوگئے تھے جس کے سبب گاڑی مالکان کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
ہڑتال کے فیصلے پر تنقید
متحدہ کی جانب سے ہڑتال کے فیصلے پر حکومتی حلقوں کی جانب سے سخت تنقید بھی کی گئی۔
ایم کیو ایم کی سابق اتحادی اور مرکز اور صوبے کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے الزام لگایا ہے کہ حکومت سے علیحدہ ہونے والے کچھ لوگ کراچی میں شرپسندی پھیلا رہے ہیں۔
بدھ کو وزیرِاعلیٰ ہائوس میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کراچی کے صدر عبدالقادر پٹیل نے بھی ہڑتال کے فیصلے کو آڑے ہاتھوں لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ حکومت سے الگ ہو کر اب حکومت کی ناکامی کا تاثر دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سانحہ عباس ٹاوٴن سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔
اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا نے کہا کہ ان شر پسندوں کوجانتے ہیں جو کسی سانحے کے بعد دہشت گردوں کی بی ٹیم کا کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سانحہ عباس ٹاوٴن کے متاثرین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔
وزیراطلاعات سندھ شرجیل میمن نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت شہر کوبند کیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کسی کو زبردستی کاروبار بند کرانے کی اجازت نہیں دے گی۔
ہڑتال کی کال واپس لینے کے فیصلے کا اعلان متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رکن رضا ہارون نے کراچی میں رات آٹھ بجے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں کیا۔
رضا ہارون کا کہنا تھا کہ شہر کے وسیع تر مفاد اور تاجروں کی اپیل پرہڑتال کی کال واپس لی گئی ہے تاہم ان کی جماعت دہشت گردوں کی گرفتاری کے مطالبے پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاجر اور صنعت کار حکومت کو بھی اس کی ذمے داری کا احساس دلائیں۔
پریس کانفرنس میں رضا ہارون کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کراچی میں قیام امن اور دہشت گردوں کی گرفتاری اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کارروائی کے لیے ہر سطح پر پر امن احتجاج جاری رکھے گی۔
اس سے قبل بدھ کی شام چار بجے بھی رضا ہارون نے ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے سانحہ عباس ٹاوٴن کے ملزمان کی گرفتاری تک شہریوں سے رضاکارانہ طور پر کاروبار بند رکھنے کی اپیل کی تھی۔
ہڑتال کے اعلان سے پیشتر کراچی کے مختلف علاقوں میں شدید فائرنگ شروع ہوگئی تھی جس سے کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا تھا۔
بعد ازاں فائرنگ کا سلسلہ صوبہ سندھ کے دیگر شہری علاقوں بشمول حیدرآباد، نواب شاہ، میرپورخاص اور سکھر تک پھیل گیا تھا جہاں مسلح افراد نے کاروباری مراکز اور بازار بند کرادیے تھے۔
متحدہ کے اعلان سے قبل ہی کراچی کی تمام سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہوگئی تھی اور دفاتر اور دیگر مقامات سے گھر واپس جانے والے لاکھوں افراد کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
لاکھوں افراد کے ایک ساتھ سڑک پر آجانے سے شہر کے مختلف علاقوں - ایم اے جناح روڈ، شاہراہِ فیصل، آئی آئی چندریگرروڈ، گلستان جوہر، شرف آباد، اور طارق روڈ سمیت کئی دیگر علاقوں میں کئی گھنٹے تک ٹریفک جام رہا۔
مختلف علاقوں میں فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کے بعد شہر کے تمام پارک اور دیگر پبلک مقامات پر ویرانی چھاگئی۔
ہنگامہ آرائی کے باعث شہر کے تمام پیٹرول پمپ بھی بند ہوگئے تھے جس کے سبب گاڑی مالکان کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
ہڑتال کے فیصلے پر تنقید
متحدہ کی جانب سے ہڑتال کے فیصلے پر حکومتی حلقوں کی جانب سے سخت تنقید بھی کی گئی۔
ایم کیو ایم کی سابق اتحادی اور مرکز اور صوبے کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے الزام لگایا ہے کہ حکومت سے علیحدہ ہونے والے کچھ لوگ کراچی میں شرپسندی پھیلا رہے ہیں۔
بدھ کو وزیرِاعلیٰ ہائوس میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کراچی کے صدر عبدالقادر پٹیل نے بھی ہڑتال کے فیصلے کو آڑے ہاتھوں لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ حکومت سے الگ ہو کر اب حکومت کی ناکامی کا تاثر دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سانحہ عباس ٹاوٴن سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔
اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا نے کہا کہ ان شر پسندوں کوجانتے ہیں جو کسی سانحے کے بعد دہشت گردوں کی بی ٹیم کا کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سانحہ عباس ٹاوٴن کے متاثرین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔
وزیراطلاعات سندھ شرجیل میمن نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت شہر کوبند کیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کسی کو زبردستی کاروبار بند کرانے کی اجازت نہیں دے گی۔