’’مفتی عبد الشکور سادہ طبعیت کے مالک تھے۔ وہ شام میں زیادہ تر اپنی گاڑی خود ہی چلا کر جہاں جانا ہوتا تھا، نکل جاتے تھے۔ وہ ڈرائیور اور محافظ بھی ساتھ نہیں رکھتے تھے۔ اکثر ان کا کہنا ہوتا تھا کہ ان کے ڈرائیور اور گن مین کی ڈیوٹی کا وقت ختم ہو گیا ہے تو انہیں تنگ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
یہ کہنا ہے سینئر صحافی سبوخ سید کا جن کی مفتی عبدالشکور کے ساتھ کئی ملاقاتیں رہیں۔
اسلام آباد میں وفاقی وزیر کی گاڑی کو حادثے کے حوالے سے سبوخ سید نے مزید بتایا کہ مفتی عبدالشکور میریٹ ہوٹل سے سیکرٹریٹ اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرکے جا رہے تھے ۔ اسی دوران 110 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنےوالے پک اپ نے ان کی گاڑی کو مکمل تباہ کر دیا۔
سبوخ سید کا کہنا تھا کہ مفتی عبدالشکور جمعیت علماء اسلام (ف) میں بہت اہمیت رکھتے تھے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی امور جیسی اہم وزارت پر مولانا فضل الرحمٰن نے انہیں وزیر بنوایا۔
ان کے بقول مولانا فضل الرحمٰن کے انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے اکثر حکومتی سطح پر مذاکرات اور بات چیت میں بھی انہیں اہمیت حاصل ہوتی تھی۔
حادثے کی ابتدائی رپورٹ
اسلام آباد پولیس کے تھانہ سیکریٹریٹ نے واقعے سے متعلق ایف آئی آر درج کرلی ہے اور حادثہ کی شکار دونوں گاڑیوں کو تھانہ منتقل کرنے کے بعد فرانزک ٹیموں کی مدد سے حقائق جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حادثے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ حادثہ تیز رفتاری کے باعث پیش آیا ،جس سڑک پر یہ حادثہ ہوا وہاں عموماً 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ کی اجازت ہے۔ یہاں کی سڑکیں تین لین کی ہیں جن پر اکثر تیز رفتاری سے گاڑیاں چلائی جاتی ہیں اور کوئی اسپیڈ کیمرہ بھی نصب نہیں ہے۔ البتہ سیف سٹی کے کیمرے بڑی تعداد میں نصب ہیں، جن سے اس حادثے کی فوٹیج بھی حاصل ہوئی ہے۔
جس گاڑی سے یہ حادثہ ہوا اس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ اسلام آباد سے سابق رکن قومی اسمبلی اور جماعت اسلامی کے رہنما میاں اسلم کی کمپنی کی گاڑی ہے۔
میاں اسلم کا کہنا ہے کہ یہ گاڑی ان کے بھائی کے اہلِ خانہ کے زیرِ استعمال تھی اور ان کا اس گاڑی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس حادثے میں مفتی عبد الشکور کی موت ہوئی ہے جب کہ دوسری گاڑی میں سوار تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جو پولی کلینک اسپتال میں زیرِ علاج ہیں جب کہ دو افراد کو حراست میں لے کر پولیس نے ان کے بیانات حاصل کر لیے ہیں۔
حادثے کے بعد مختلف پہلوؤں کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے کہ حادثے کے وقت گاڑی کا کوئی بھی ایئربیگ نہیں کھلا۔
اس کے علاوہ دوسری گاڑی میں سوار افراد کا میڈیکل چیک اپ بھی کرایا جا رہا ہے کہ ان میں سے ڈرائیور یا کوئی اور شخص کسی نشہ کے زیرِ اثر تو نہیں تھا۔
حادثے کے بعد مفتی عبدالشکور کو ایک پرائیویٹ گاڑی میں پولی کلینک اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ڈاکٹرز نے ان کی جان بچانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق مفتی عبدالشکور کے سر میں لگنے والی چوٹ ان کی ہلاکت کا باعث بنی جب کہ شدید ٹکر کے باعث ان کے جسم کی کئی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئی تھیں۔
مفتی عبدالشکور کی سیاست
مفتی عبد الشکور نے پارلیمانی سیاست کا آغاز دس برس قبل 2013 میں کیا تھا جب انہوں نے فاٹا سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا لیکن کامیابی حاصل نہ کرسکے۔
اس کے بعد مفتی شکور نے 2018 میں فاٹا سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے- 51 سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔
مفتی عبدالشکور کا تعلق لکی مروت کے گاؤں تاجبی خیل سے تھا۔ مفتی شکور نے فلسفے اور اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا جب کہ وہ مختلف مدارس میں فقۂ بھی پڑھاتے رہے۔
وہ پشاور میں ایک مسجد کے باقاعدہ خطیب بھی تھے اور اسی مسجد سے ملحقہ مدرسے میں طلبہ کو پڑھاتے بھی تھے لیکن وفاقی وزارت ملنے کے بعد انہوں نے مدرسے میں تعلیم دینے کا سلسلہ مؤخر کر دیا تھا۔
وہ جے یو آئی (ف) فاٹا کے امیر تھے اور گزشتہ سال اپریل میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد انہیں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کا قلم دان دیا گیا تھا۔
بعض سیاسی مبصرین ان کی وزارت میں کارکردگی دیگر وزرا کے مقابلہ بہتر سمجھتے تھے کیوں کہ گزشتہ برس حج کے اخراجات میں اگرچہ اضافہ ہوا تھا۔ تاہم انہوں نے سعودی حکام سے مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے حاجیوں کے لیے کئی مراعات حاصل کیں اور پانچ ارب روپے سے زائد رقم بھی حاجیوں کو واپس کرائی۔
رواں سال بھی وہ حج اخراجات کم کرنے کی کوشش کررہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ سعودی حکام سے اخراجات کم کرانے کے باوجود بھی روپے کی تنزلی کی وجہ سے اخراجات بڑھے ہیں، جس پر وہ مجبور ہیں۔ ان دنوں بھی وہ حج کی تیاریوں کی وجہ سے مصروف تھے اور ان کا زیادہ وقت وزارت کے دفتر میں ہی گزرتا تھا۔
مفتی عبدالشکور نے پسماندگان میں ایک بیٹا اور دو بیوہ چھوڑی ہیں۔
ان کی ایک نماز جنازہ ان کی ہلاکت کے چند گھنٹوں بعد اسلام آباد اور دوسری ان کے آبائی علاقے لکی مروت میں ادا کیے جانے کے بعد ان کی تدفین کردی گئی۔
مفتی عبداشکور کی ہلاکت پر صدر وزیراعظم سمیت سعودی سفیر، وفاقی وزرا اور دیگر نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
متنازع بل
اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر مفتی عبدالشکور کے حادثے پر بعض ایسے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں جن میں ان کی طرف سے قومی اسمبلی میں قانون سازی کے لیے بھجوائے جانے والے بل کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
تحفظِ ناموس صحابہ بل رواں سال جنوری میں قومی اسمبلی میں منظور کیا گیا تھا جس کے مطابق صحابہ کی توہین کرنے پر موجودہ تین سے پانچ سال سزا کو کم از کم سزا 10 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔
بل کے مطابق اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ توہین کرنے والے نے کون سے الفاظ استعمال کیے، الفاظ شدید توہین کے زمرے میں آئے تو سزا عمر قید بھی ہوسکتی ہے۔
اس بل کے حوالے سے بعض افراد کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ اس بل کو ایک مخصوص مذہبی فرقے کو ٹارگٹ کرنے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ تاہم وزارت مذہبی امور کی طرف سے ایسی کسی بھی اطلاع کی تردید کی گئی تھی۔