|
نئی دہلی -- لوک سبھا کے انتخابی نتائج آنے کے بعد جہاں بہت سے موضوعات زیر بحث ہیں وہیں میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اس پر بھی گفتگو ہو رہی ہے کہ ان انتخابات میں مسلم اور دلت ووٹرز نے کیا کردار ادا کیا اور نئی لوک سبھا میں ان کی نمائندگی کی صورت حال کیا ہے۔
بیش تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسلمانوں اور دلتوں نے انتخابی مقابلوں میں بی جے پی کے مخالف پلڑے میں اپنا وزن ڈالا ہے جس کی وجہ سے ملک کا انتخابی و سیاسی نقشہ تبدیل ہو گیا۔
انتخابی نتائج سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس بار مسلمانوں کا ووٹ منتشر نہیں ہوا۔ انھوں نے اجتماعی طور پر حزب اختلاف کے اتحاد ’انڈیا‘ کو ووٹ دیا پئ۔ اسی طرح دلتوں اور دیگر پسماندہ برادریوں (او بی سی) نے بھی اپوزیشن اتحاد کو ووٹ دیا جس کی وجہ سے بی جے پی کو بہت سی سیٹیں گنوانا پڑیں۔
حالانکہ سیاسی جماعتوں نے گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں اس بار کم مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے۔ 2019 میں 543 نشستوں کے لیے مجموعی طور پر 115 مسلم امیدوار کھڑے ہوئے تھے جب کہ 2024 میں ان کی تعداد 78 تھی۔
گزشتہ لوک سبھا میں مسلم ارکان کی تعداد 26 تھی اس بار دو کم ہو کر 24 رہ گئی ہے۔ 2014 میں یہ تعداد 23 تھی۔
اس بار کانگریس کے سات، ’ترنمول کانگریس‘ (ٹی ایم سی) کے پانچ، سماجوادی پارٹی (ایس پی) کے چار، انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) کے تین، نیشنل کانفرنس کے دو، ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ (اے آئی ایم آئی ایم) کے ایک اور دو آزاد مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
کامیاب امیدواروں میں سہارنپور یوپی سے عمران مسعود، دھوبری آسام سے رقیب الحسین، کیرانہ اترپردیش سے سماجوادی پارٹی کی اقرا چودھری، غازی پور سے افضال انصاری، رامپور سے مولانا محب اللہ ندوی، حیدرآباد سے اے آئی ایم آئی ایم کے اسد الدین اویسی، لداخ سے آزاد محمد حنیفہ، بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بارہمولہ سے آزاد انجینئر رشید، بہرامپور مغربی بنگال سے ٹی ایم سی کے یوسف پٹھان اور پونانی کیرالہ سے انڈین یونین مسلم لیگ کے عبد الصد صمدانی قابل ذکر ہیں۔
SEE ALSO: نریندر مودی نے ہندوتوا کے نظریے کو بھارتی سیاست کا محور کیسے بنایا؟سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے ’پی ڈی اے‘ نام سے ایک فارمولہ بنایا تھا یعنی پچھڑا، دلت اور الپ سنکھیک یعنی اقلیت۔ اور اس کے 86 فی صد کامیاب امیدوار او بی سی، دلت اور اقلیتی برادری سے ہیں۔
سماج وادی پارٹی کے کامیاب 37 امیدواروں میں 20 او بی سی، آٹھ دلت اور چار مسلمان ہیں۔ یہاں تک کہ اترپردیش کے ایودھیا سے سماجوادی پارٹی کے دلت امیدوار اودھیش پرساد نے بی جے پی کے اونچی ذات کے امیدوار للو سنگھ کو ہرایا ہے۔
اگر مجموعی طور پر کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے کامیاب امیدواروں کو دیکھیں تو 33 فیصد او بی سی، 19 فیصد دلت اور چھ فیصد مسلمان ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس بار بی جے پی کو بہت کم دلت ووٹ ملا۔ 2019 کے الیکشن میں دلتوں کی پارٹی ’بہوجن سماج پارٹی‘ (بی ایس پی) کا اکثریتی ووٹ بی جے پی کو ملا تھا لیکن اس بار اس کے زیادہ ووٹرز نے ’انڈیا‘ اتحاد کو ووٹ دیا۔
سابق رکن پارلیمان محمد ادیب کہتے ہیں کہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے مسلمان منفی ووٹنگ کرتے رہے ہیں۔ یعنی بی جے پی کو ہرانے کے لیے کبھی اس پارٹی کو تو کبھی اس پارٹی کو ووٹ دیتے رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب انھوں نے مثبت ووٹنگ کی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اترپردیش میں 32 لوک سبھا حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 20 سے 52 فی صد تک ہے۔ ان میں 28 پر بی جے پی کامیاب ہوتی رہی ہے۔ س بار دو سیٹوں کو چھوڑ کر باقی سب پر ہار گئی۔
یاد رہے کہ اس الیکشن میں مسلمانو ں کو بہت کم اہمیت دی گئی تھی۔ یہاں تک کہ کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کے لیے کسی اسکیم کا اعلان نہیں کیا۔
مبصرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ان کی آواز اٹھانے والے کو ملک کا غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ 2014 کے بعد مسلمانوں کے تعلق سے سیاسی جماعتوں کا نظریہ بدل گیا ہے۔
SEE ALSO: بھارت: 'مسلمان زیادہ بچے پیدا کرنے والے اور درانداز'؛ وزیرِ اعظم مودی کے بیان پر بحثوزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی بیش تر انتخابی تقریروں میں کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں پر مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کا الزام لگایا تھا۔
یو پی اے حکومت کے سابق وزیر اے کے اینٹونی نے اپنی رپورٹ میں 2014 میں مسلمانوں کے مسائل کو اٹھانے کو کانگریس کی شکست کی وجہ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد بی جے پی نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے۔
محمد ادیب کہتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی نے مسلمانوں کی سیاسی حیثیت ختم کر دی تھی۔ پہلے جہاں ہر پارٹی یہ سوچتی تھی کہ مسلمان اس سے ناراض نہ ہو جائے وہیں 2014 کے بعد مسلمانوں کا نام لینا بھی جرم بن گیا تھا۔
متعدد تجزیہ کار مسلمانوں، دیگر پسماندہ برادریوں اور دلتوں کی جانب سے اپوزیشن اتحاد کو ووٹ دینے کی ایک وجہ یہ بتاتے ہیں کہ بی جے پی کے بعض ارکان پارلیمان نے آئین کو بدلنے کی بات کہی تھی جس کا مسلمانوں میں تو منفی اثر ہوا ہی دلتوں اور دیگر پس ماندہ برادریوں میں بھی ہوا۔
مسلمانوں اور دلتوں کے تعلیمی، سماجی اور سیاسی صورت حال پر گہری نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار پروفیسر فرقان قمر کہتے ہیں کہ دراصل غربت اور بے روزگاری مسلمانوں، دلتوں اور او بی سی میں زیادہ ہے۔ اونچی ذات کے ہندو اس سے کم متاثر ہیں۔
ان کے مطابق بی جے پی نے بھی متعدد او بی سی امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں سے کچھ کامیاب ہوئے ہیں۔ لہٰذا اس بار لوک سبھا کی جو بناوٹ ہوگی اس کا جھکاؤ اونچی ذات کے ہندووں کے بجائے دلت، شیڈولڈ کاسٹ اور او بی سی کی جانب ہوگا۔
لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ 2019 کے انتخابات میں کامیاب مسلمانوں کی شرح ساڑھے پانچ فی صد تھی۔ اس بار یہ کم ہو کر ساڑھے چار رہ گئی ہے۔ جب کہ مسلمانوں کی آبادی تقریباً 15 فی صد ہے۔ لیکن اگر انڈیا اتحاد کے کامیاب مسلم امیدواروں کا فی صد دیکھیں تو وہ سات ہے۔ ان کے بقول، یہ بات تشویش ناک ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس بار کے نتائج بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ مسلمان جیتنے کے امکانات نہیں رکھتے۔ موجودہ نتائج نے اس کی نفی کر دی ہے۔ اگر مسلمانوں کو موقع ملے تو وہ جیت کر دکھا سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پروفسیر فرقان قمر ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایسے حلقوں میں جہاں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے اور وہ نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں حکومت نے انھیں دلتوں اور او بی سی کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے فطری طور پر وہاں سے مسلمان کامیاب نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی نشان دہی مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی ور اقتصادی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ڈاکٹر من موہن سنگھ کی جانب سے تشکیل دی جانے والی سچر کمیٹی کی رپورٹ میں بھی کی گئی ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی والے حلقوں کو دوسروں کے لیے مخصوص نہ کرے۔
ان کے مطابق اس بار مسلمانوں نے جذباتیت کے بجائے عقلمندی سے ووٹنگ کی جس کی وجہ سے ان کا ووٹ بکھرنے سے بچ گیا۔
اس کی تائید محمد ادیب بھی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق مسلمانوں نے مسلک اور برادری پر آئین کے تحفظ کو ترجیح دی۔ کیوں کہ اگر آئین بچے گا تبھی مسلمان بچے گا۔ یہ رجحان بہت خوش آئند ہے۔
ان کے مطابق اس الیکشن میں ایک بار پھر مسلمانوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ سیاسی طور پر غیر اہم نہیں ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں اب یہ مسلم قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام سیاسی پارٹیوں کو یہ بتائے کہ مسلمان سیاسی طور پر غیر اہم نہیں ہیں۔
بی جے پی کے واحد مسلم امیدوار عبد اسلام ملا پورم کیرالہ سے ہار گئے ہیں۔ وہ تیسرے نمبر پر آئے ہیں۔ وہاں انڈین یونین مسلم لیگ کے ای ٹی محمد بشیر کامیاب ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے باوجود بی جے پی کو ایودھیا میں شکست کیوں ہوئی؟اترپردیش میں ایک نئی پارٹی ’بھیم آرمی‘ کے نوجوان صدر چندر شیکھر آزاد کا اترپردیش کے نگینہ حلقے سے کامیاب ہونا ایک اہم واقعہ تصور کیا جا رہا ہے۔ اکھلیش یادو نے ان کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
آزاد کو دلت سیاست میں بی ایس پی کی صدر مایاوتی کا متبادل سمجھا جا رہا ہے۔
چندر شیکھر کو 51.19 فی صد ووٹ ملے ہیں۔ نگینہ حلقہ شیڈولڈ کاسٹ (ایس ٹی) کے لیے مخصوص ہے۔ اس حلقے میں مسلمانوں اور دلتوں کی خاصی آبادی ہے۔ بھیم آرمی کا قیام 2015 میں ہوا تھا۔
اترپردیش کی بی جے پی حکومت نے 2017 میں چندر شیکھر کو گرفتار کیا تھا۔ ان پر انتہائی خطرناک قانون یو اے پی اے لگایا گیا تھا۔ 2018 میں اس قانون کی واپسی کے بعد انھیں ضمانت مل گئی اور وہ جیل سے باہر آگئے تھے۔