|
کراچی _ "ہماری امید دم توڑ چکی تھی اور ہمیں لگتا تھا کہ ہماری پریا مر چکی ہے۔ اب جب سے سنا ہے کہ وہ زندہ ہے تو ہماری امید پھر سے جاگی ہے۔ ہم پھر سے جی اٹھے ہیں۔ بس اب انتظار ہے کہ اپنی بیٹی کو جلد اپنے پاس دیکھ سکیں۔"
یہ کہنا ہے 38 سالہ راج کمار کا جو تین سال قبل لاپتا ہونے والی پریا کماری کے والد ہیں اور سکھر شہر میں پرچون کی دکان چلاتے ہیں۔
صوبہ سندھ کے شہر سکھر سے متصل گاؤں سنگرار سے تین سال قبل پراسرار طور پر لاپتا ہونے والی پریا کماری کی عمر سات برس تھی جب وہ لاپتا ہوئیں۔
تین سال گزرنے کے بعد وزیرِ داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے حال ہی میں ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پریا کماری زندہ ہے اور ہم اس کے نزدیک پہنچ گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق چولستان میں بچی کی موجودگی کا سراغ ملا ہے اور اسے جلد بازیاب کرا لیا جائے گا۔
اس بیان کے بعد عورت مارچ اور اقلیتی حقوق مارچ نے معاملے کو اٹھایا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ پریا کماری کے والدین کو بیٹی سے متعلق ملنے والی معلومات سے فوری آگاہ کریں۔
اس سلسلے میں 20 جولائی کو کراچی کے علاقے تین تلوار پر سول سوسائٹی نے احتجاج بھی کیا جس میں پریا کماری کے والدین بھی شریک تھے۔
کئی گھنٹے جاری رہنے والے اس احتجاج پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج بھی کیا گیا لیکن مظاہرین کے مطالبے پر صوبائی وزیرِ داخلہ مذاکرات کے لیے پہچنے اور وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں میٹنگ کی یقین دہانی کرائی۔
اکیس جولائی کو وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں پریا کے والدین سمیت آٹھ افراد پر مشتمل ایک وفد نے وزیرِ داخلہ سے ملاقات کی اور درخواست پیش کی کہ انہیں ایک مقررہ وقت بتایا جائے جب پریا کو ان کے والدین کے حوالے کیا جائے گا۔
راج کمار کے مطابق "پریا کے لاپتا ہونے کے بعد کوئی ایسا دن نہیں جب گھر میں اس کا ذکر نہ ہو۔ میری بیوی روز اسے یاد کر کے روتی رہتی ہے۔"
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے راج کمار نے کہا کہ پریا کی گمشدگی کے ایک ماہ تک انہوں نے اپنی دکان بند کر کے صرف بیٹی کی تلاش جاری رکھی۔ ہر کوئی کچھ نہ کچھ کہتا تھا لیکن ہم یہی چاہتے تھے کہ وہ صحیح سلامت گھر واپس لوٹ آئے۔
راج کمار کے مطابق 19 اگست 2021 کی دوپہر ان کی بیٹی دس محرم کے سلسلے میں لگائی گئی سبیل پر موجود تھی جب وہ اچانک لاپتا ہوئی۔ جس کے بعد کی گھنٹے تلاش کے بعد بھی وہ نہ ملی تو 22 اگست کو مقامی تھانے میں گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔
پریا کی گمشدگی کے بعد سے اب تک کیا ہوا؟
پریا کماری کی گمشدگی کے بعد سے علاقے کے لوگوں سمیت ہندو برادری نے کافی احتجاج کیا۔ پولیس کی یقین دہانی کے بعد کئی بار احتجاج ختم کرنا پڑے۔
راج کمار کے مطابق، "ہم نے اپنی بیٹی کی واپسی اور تلاش کے لیے بے شمار بار تھانے کے چکر کاٹے لیکن بس یہی سن کر لوٹتے کہ ہم ڈھونڈ رہے ہیں۔ اپنے طور پر بھی ہم نے لوگوں کو کہہ کر بیٹی کو ڈھونڈنے کی کوششیں کیں لیکن پھر سال گزر گیا اور ہماری امیدیں دم توڑنے لگیں۔"
بچوں کے تحفظ کے لیے وفاقی حکومت نے 2020 میں زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی (زاررا) بل کی منظوری دی تھی۔ جس کے تحت پاکستان کے کسی بھی صوبے اور شہر میں کوئی بھی کمسن بچہ یا بچی لاپتا یا اغوا ہو تو متعلقہ پولیس اسٹیشن میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ (زاررا) ایجنسی کو بھجوائی جائے گی۔
زاررا ایکٹ کا مقصد ملک بھر میں بچوں خصوصاً کم عمر بچیوں کے خلاف بڑھنے والی جنسی زیادتیوں کے کیسز اور اغوا کے واقعات کی روک تھام اور مجرموں کو سزائیں دینا تھا۔
کیا پریا کماری کی گمشدگی پر 'زاررا' حرکت میں آیا؟
مائنورٹی رائٹس مارچ کے رہنما اور وکیل لیوک وکٹر کہتے ہیں زاررا بل 2020 میں بنتا ہے اور 2021 میں سندھ سے سات سالہ بچی پریا کماری دن دیہاڑے لاپتا ہو جاتی ہے اور تین سال تک اس کے والدین کو اس کی کوئی خبر تک نہیں ملتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ بل تو اسمبلی سے پاس ہو گیا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'زاررا الرٹ' کا مقصد ہی یہی تھا کہ کوئی بھی بچہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے یا قتل کیے جانے سے قبل ہی بازیاب کرا لیا جائے۔ لیکن جب پریا کی گمشدگی کی اطلاع تھانے میں آئی تو پولیس (زاررا) ایکٹ کے تحت حرکت میں کیوں نہیں آئی۔
لیوک وکٹر کے مطابق انہوں نے پریا کے والدین کو پیش کش کی ہے کہ اگر حکومت ان کی بچی کو جلد بازیاب نہیں کرواتی اور کوئی بازیابی سے متعلق حتمی تاریخ نہیں بتاتی تو وہ انہیں قانونی مدد دینے کے لیے تیار ہیں۔