قومی اسمبلی سے بجٹ منظور، حزبِ اختلاف کی مجوزہ ترامیم مسترد

فائل فوٹو

پاکستان کی قومی اسمبلی نے مالی سال 21-2020 کے لیے پیش کردہ بجٹ کو کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے جب کہ حزبِ اختلاف کی پیش کردہ ترامیم مسترد کر دی گئی ہیں۔

قومی اسمبلی کے 12 جون سے جاری اجلاس میں بجٹ کی منظوری کے روز حکومت و حزبِ اختلاف نے اپنے اراکین اسمبلی کو خاص طور پر شرکت یقینی بنانے کی تاکید کی تھی۔

حزبِ اختلاف کو امید تھی کہ وہ حکومتی اتحادی جماعتوں کی علیحدگی اور اراکین کی ناراضگی کے سبب بجٹ منظور میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرپائے گی تاہم حزبِ اختلاف عددی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

واضح رہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کا کل حجم 71 کھرب 37 ارب روپے ہے جس میں فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کی جانب سے حکومتی آمدن کا تخمینہ محصولات کی صورت میں 4963 ارب روپے اور نان ٹیکس آمدن کی مد میں 1610 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔

آئندہ مالی سال کا بجٹ 3437 ارب روپے خسارہ کا بجٹ ہے جو کہ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا 7 فی صد بنتا ہے۔

اسپیکر اسد قیصر کی صدارت میں اجلاس کا آغاز ہوا تو حکومتی رہنماؤں اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے پارلیمانی سربراہوں کے درمیان لفظی تکرار شروع ہوئی۔

حزبِ اختلاف نے حکومت کی پالیسیوں اور بجٹ کو ہدفِ تنقید بنایا جب کہ وفاقی وزرا نے ان کا دفاع کیا اور حزبِ اختلاف پر جوابی حملے کرنے کا موقع بھی نہ جانے دیا۔

بجٹ کی منظوری کے دن ایوان میں متعدد بار حکومت اور حزبِ اختلاف کی بینچوں سے نعروں اور تنقیدی جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔

مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف کی وفاقی وزیر فواد چوہدری سے نوک جھونک ہوتی رہی تو مراد سعید بھی حسبِ معمول بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا جواب دینے کے لیے تیار دکھائی دیے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'پارٹی کے اندرونی جھگڑوں سے حکومت کو نقصان پہنچا'

تاہم ایوان میں اس وقت عجیب صورتِ حال پیدا ہوئی جب بلاول بھٹو زرداری نے وزیرِ اعظم عمران خان کی گزشتہ ہفتے کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا کہ وزیرِ اعظم دہشت گردوں کے بانی اسامہ بن لادن کو تو شہید کہتے ہیں لیکن بے نظیر بھٹو کو شہید نہیں کہہ سکتے۔

بجٹ کی منظوری کا عمل شروع ہوا تو اسپیکر اسد قیصر بیشتر کارروائی پر یہ کہہ کر گزر گئے کہ اسے پڑھا ہوا تصور کیا جائے۔

حزبِ اختلاف نے بجٹ پر 21 ترامیم پیش کی تھیں جنہیں ووٹنگ کے عمل کے ذریعے مسترد کیا گیا۔

اس سے قبل حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ فاصلے بڑھنے اور بعض حکومتی اراکین کی ناراضگی کے باعث حزبِ اختلاف کو امید تھی کہ وہ بجٹ منظوری میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر پائے گی۔

بلاول بھٹو زرداری نے اتوار کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بجٹ کو مسترد کر دیا تھا۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی گزشتہ شب تحریکِ انصاف اور اتحادی جماعتوں کے اراکینِ اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا اور اراکینِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے اجرا کی یقین دہانی کی تھی۔

حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) اور حال ہی میں اتحاد سے الگ ہونے والی بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے رہنماوں نے وزیرِ اعظم کے عشائیے میں شرکت نہیں کی تھی۔

مسلم لیگ (ق) کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے وزیرِ اعظم کے عشائیے کے وقت ہی اپنی رہائش گاہ پر اتحادی جماعتوں کے اراکین کو کھانے پر مدعو کیا ہوا تھا جس میں مسلم لیگ (ق) کے اراکین کے علاوہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (گی ڈی اے) کی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، بلوچستان عوامی پارٹی کی ڈاکٹر زبیدہ جلال، خالد مگسی اور گوادر سے آزاد رکنِ اسمبلی اسلم بھوتانی نے شرکت کی۔

پیر کو قومی اسمبلی کے ایوان میں کچھ فاصلے کے ساتھ اراکین کی نشستیں لگائی گئیں تو اکثر نشستوں پر اراکین براجمان تھے۔

حکومتی و اتحادی جماعتوں کے اراکین دن بھر ہونے والے اجلاس میں موجود رہے جب کہ وزیرِ اعظم عمران خان اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی ایوان میں آئے تاہم قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے باعث اجلاس میں شرکت نہ کرسکے۔

Your browser doesn’t support HTML5

نئے معمولات کے ساتھ کاروبار کا تجربہ کیسا ہے؟

بجٹ منظوری کے دوران ایک موقع پر جب اسپیکر نے حزب اختلاف کے کہنے پر ووٹنگ کرائی تو حکومتی نشستوں پر 160 جب کہ حزبِ اختلاف کی نشستوں پر 119 ارکان موجود تھے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل اگرچہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تاہم ان کی جماعت کے اراکین نے بجٹ منظوری کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

حزبِ اختلاف کے اراکین نے بجٹ منظوری کے وقت اپنی نشستوں کے سامنے پلے کارڈز بھی رکھے ہوئے تھے جن پر بجٹ اور حکومت مخالف نعرے تحریر تھے۔

'بن لادن کو شہید کہتے ہیں بے نظیر کو نہیں'

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری نے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے اسامہ بن لادن کو شہید کہنے کا معاملہ بھی ایوان میں اٹھایا تو ایوان میں عجیب صورتِ حال پیدا ہوگئی۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے اس اسامہ بن لادن کو شہید قرار دیا جس نے پاکستان کے بچوں، افواج اور شہریوں کو شہید کیا تھا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم اسامہ بن لادن کو شہید قرار دیتے ہیں لیکن دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے شہید ہونے والی بے نظیر بھٹو کو شہید نہیں کہتے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران اسامہ کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسامہ کو امریکہ نے شہید کیا۔

اس حوالے سے بلاول بھٹو زرداری کا مزید کہنا تھا کہ شہید بنیظر بھٹو کے کیس سے لے کر کار ساز حملے تک کا الزام اسامہ بن لادن پر ہی ہے۔ یہ آدمی جن کو ہم وزیرِ اعظم کہتے ہیں وہ پاکستان اور مسلم اُمہ کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم جو دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئیں، کو شہید نہیں کہتے مگر اسامہ بن لادن کو شہید کہہ سکتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرِ اعظم اس قدر بُزدل ہیں احسان اللہ احسان، حکیم اللہ محسود اور دیگر طالبان کے خلاف بات تک نہیں کر سکتے۔

بلاول بھٹو کے ان حملوں پر اسپیکر قومی اسمبلی نے مداخلت کی اور بلاول بھٹو زرداری سے لفظ بُزدل واپس لینے کے لیے کہا۔

Your browser doesn’t support HTML5

کرونا وائرس سے جائیداد کی خرید و فرخت متاثر

اس پر بلاول بھٹو زرداری وزیرِ اعظم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اُسامہ بن لادن کو شہید قرار دینا اور اتنے دن گزرنے کے بعد بھی عدم وضاحت اور معافی نہ مانگنا اِس کرسی، ایوان اور ہر پاکستانی کی توہین نہیں ہے؟

'وزیراعظم استعفی نہیں دیں گے'

بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے حزبِ اختلاف کی جانب سے وزیرِ اعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کے مطالبے پر کہا کہ عمران خان کو عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف کے ایک پارلیمانی سربراہ نے کہا کہ وزیرِ اعظم استعفیٰ دے دیں۔ وزیرِ اعظم استعفیٰ کیوں دیں؟ عمران خان کو ایوان کا اعتماد حاصل ہے۔ پاکستانی عوام نے انہیں مینڈیٹ دیا ہے۔ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔

شاہ محمود نے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کہا جاتا تھا کہ ان کی صفوں میں کھلبلی ہے لیکن دیکھ لیجیے تحریکِ انصاف اور اتحادی جماعتیں مضبوطی سے کھڑی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حزبِ اختلاف کے پاس اکثریت ہے تو وہ اس فنانس بل کو مسترد کر دے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔