پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طلبہ تنظیموں کے رہنما رہ چکے ہیں۔ سابق فوجی صدر ضیاالحق نے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی تھی اور مبصرین اس اقدام کو سیاست کی نرسری ختم کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیاالحق کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔
اس سلسلے میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ محمد عامر سے خصوصی گفتگو پیش خدمت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سوال: کیا آپ کو طلبہ یونینز کی بحالی کی تحریک چلانے کا خیال بائیں بازو کے طلبہ کا احتجاج دیکھ کر آیا ہے؟
محمد عامر: نہیں، انھیں دیکھ کر خیال نہیں آیا۔ جب سے طلبہ یونینز پر پابندی لگی ہے، جمعیت کسی نہ کسی صورت میں ان کی بحالی کے لیے کوشش کرتی رہی ہے۔ ہمارا تنظیمی ڈھانچہ اس وقت سے پوری طرح سے متحرک ہے۔ ہر سال الیکشن ہوتا ہے۔ بالکل نچلی سطح کا حلقہ، جسے ہم برانچ کہتے ہیں، وہاں سے مرکزی قیادت تک تمام افراد منتخب ہوتے ہیں۔ جمعیت ان 35 برسوں میں مسلسل کام کرتی رہی ہے۔ اس دوران ہم نے آئینی اور قانونی جدوجہد بھی کی ہے۔ یعنی پارلیمان کے اندر ہم سینیٹرز سے ملتے رہے ہیں۔ اس سال بھی چیئرمین سینیٹ سے ملاقات کی ہے۔ سینیٹ نے طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے 2017 میں قرارداد منظور کی تھی۔ ہم نے ان سے کہا کہ آپ نے قرارداد منظور کی ہے تو اس کام کو آگے بڑھائیں اور حکومت سے کہیں کہ پابندی ختم کرے۔ اس طرح قانونی جدوجہد بھی جاری ہے۔ جمعیت ہی نے 1991 میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ عدالت نے واضح فیصلہ تو نہیں دیا لیکن یہ کہا تھا کہ طلبہ کو غیر نصابی سرگرمیوں کا موقع دیا جائے۔ اس لیے ایک دن بھی ایسا نہیں ہے کہ ہم تھک کر بیٹھ گئے ہوں یا ہماری تنظیم متحرک نہ رہی ہو۔ ہر سال 9 فروری کو ہم یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ تو ہماری جدوجہد سب کے سامنے ہے۔ اس میں کسی سے متاثر ہونے یا کسی کو دیکھ کر احتجاج کرنے کا خیال آنے والی کوئی بات نہیں۔
سوال: الگ الگ احتجاج کیوں؟ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ تمام طلبہ مل کر تحریک چلاتے؟
محمد عامر: یہ بالکل مناسب ہوتا۔ لیکن 29 نومبر کے مارچ کی تاریخ جنھوں نے طے کی تھی، انھیں دوسروں سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ لیکن میں نے بھی میڈیا میں جو تھوڑا بہت سنا، وہ یہی تھا کہ پوری مہم جمعیت کے خلاف ہے۔ ہمارا یہی خیال ہے کہ اس وقت تمام تنظیموں کو، چاہے وہ دائیں بازو کی ہوں یا بائیں بازو کی، انھیں ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ ہمیں امید تھی کہ جب جمہوری حکومت آئے گی تو یہ طلبہ یونینز پر پابندی کو ختم کرے گی اور الیکشن کروائے گی۔ لیکن یہ تیسری جمہوری حکومت ہے جس نے پابندی کو برقرار رکھا ہے۔ فوری طور پر ہم سب کو اس پابندی کے خاتمے کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے۔ ہم اس وقت متحدہ طلبہ محاذ کا بھی حصہ ہیں جو طلبہ تنظیموں کا گرینڈ الائنس ہے۔ یہ 2003 میں بنا تھا اور اس میں 20 سے زیادہ طلبہ تنظیمیں ہیں۔ ان میں بیشتر دائیں بازو کی ہیں۔ ان میں سے کسی کو 29 نومبر کے مارچ میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ پتا نہیں کیسے ان لوگوں کو خیال آیا اور ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ چونکہ یہ ان کا ایونٹ ہے تو انھیں ہی سب سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ ہم جب اس طرح کا کوئی بڑا ایونٹ کریں گے تو سب کو مدعو کریں گے۔
سوال: آپ کی تحریک کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا یہ بائیں بازو کے طلبہ سے مختلف ہیں؟
محمد عامر: بنیادی مقاصد اور مطالبات تو ایک ہی ہیں۔ ہم نے ان کے مطالبات دیکھے ہیں اور ہم بھی انھیں مطالبات پر بات کر رہے ہیں کیونکہ وہ طلبہ کے حقیقی مسائل ہیں۔ یونین کی بحالی ہے، فیسوں میں اضافہ ہے، ہوسٹلوں میں بدانتظامی ہے۔ ان پر ہم بھی مسلسل آواز اٹھارہے ہیں اور ان سے ملتے جلتے مطالبات وہ بھی کر رہے ہیں۔ لیکن ایک چیز جو ہمیں اچھی نہیں لگی، وہ یہ ہے کہ جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ دائیں بازو کی تنظیموں سے رابطہ کیوں نہیں کر رہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہماری پوری مہم جمعیت کے خلاف ہے۔ ایسی باتوں سے اختلاف پیدا ہوتا ہے اور بنیادی مقصد متاثر ہوتا ہے۔ حالانکہ جو بھی اس کے لیے کوشش کر رہا ہے، اس کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: جمعیت پر اکثر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کے لڑکے دوسرے طلبہ پر تشدد کرتے ہیں اور کالجوں یونیورسٹیوں میں دوسری تنظیموں کو گھسنے نہیں دیتے۔ طلبہ یونینز پر پابندی ہٹانے سے تشدد کا سلسلہ ایک بار پھر شروع نہیں ہو جائے گا؟
محمد عامر: اصل میں تشدد کا معاملہ شروع ہی یونینز پر پابندی سے ہوا ہے۔ اگر کسی کو یہ شکایت ہے کہ جمعیت پنجاب یونیورسٹی میں ایسا کرتی ہے، آپ نے تو نام نہیں لیا لیکن ظاہر ہے کہ ایک بڑی جگہ وہی ہے جہاں سے یہ شکایت آتی ہے۔ خود ہمیں کئی مقامات پر یہ شکایت ہے۔ سندھ میں ہم نے وہ عرصہ بھگتا ہے جب ہمارا کارکن پاکستان کا نام لینے اور اسٹیکر لگانے پر بھی مار کھاتا تھا۔ ہمارے ساتھ یہ بلوچستان میں بھی ہوتا رہا ہے۔ قوم پرستوں کے ہوتے ہوئے جمعیت کے کارکن مسلسل مار کھاتے رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ یہی سلوک گزشتہ 20 سال سے قائداعظم یونیورسٹی میں ہو رہا ہے۔ یہ الزامات دونوں طرف ہیں اور ان میں کسی قدر حقیقت بھی ہے۔ ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ طلبہ یونینز پر پابندی سے تشدد بڑھا ہے کیونکہ پھر قبضہ کلچر پروان چڑھا ہے۔ جو جہاں تھا، وہ وہیں جم کر بیٹھ گیا ہے۔ ہم پنجاب یونیورسٹی میں بیٹھ گئے ہیں تو وہ قائداعظم یونیورسٹی میں جم گئے ہیں۔ جمعیت کے لیے ان کی زیرو ٹولرنس ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں قوم پرست بیٹھ گئے ہیں۔ اس میں صرف جمعیت نہیں، تمام طلبہ تنظیمیں شامل ہیں۔
اب یہ ختم کیسے ہو؟ طلبہ یونینز پر پابندی ختم ہو گی تو طلبہ تنظیمیں خود ہی اپنی غلطیوں سے سیکھیں گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ پابندی ختم ہو اور تمام تعلیمی ادارے سب کے لیے کھل جائیں۔ فی الحال کوئی اپنا قبضہ اس لیے چھوڑنے کو تیار نہیں کہ ایک چھوڑے گا تو دوسرا قبضہ کر لے گا۔ ہم پنجاب یونیورسٹی کو اوپن کریں گے تو باقی تنظیمیں ہمیں کام نہیں کرنے دیں گی۔ طلبہ یونینز پر پابندی ختم ہو، اس کا ضابطہ اخلاق طے ہو، تمام تنظیمیں اس کی پاسداری کریں تو معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ طالب علم خود سب کو دیکھے گا اور ووٹ دے گا۔ یہ قومی سیاست کی طرح پانچ سال کا عمل نہیں ہوتا۔ ہر سال الیکشن ہوں گے۔ جو تنظیمیں بہتر منشور، بہتر ایجنڈا، بہتر قیادت پیش کریں گی، اچھی کارکردگی دکھائیں گی وہ جیتیں گی اور دوسری تنظیمیں آئندہ کے لیے بہتر تیاری کریں گی۔ یونینز بحال ہو جاتی ہیں تو یہ پاکستان کے تعلیمی نظام کے لیے، ان کے اداروں کے لیے، قومی سیاست کے لیے بہت اچھا ہو گا۔ سیاسی جماعتیں اس وقت فیملی لمیٹڈ بن چکی ہیں، موروثیت ہے، اس کا کلچر ختم ہونا چاہیے۔ سیاست کی نرسری سے لوگ نہیں آ رہے تو یہ پاکستان کی جمہوریت کے لیے منفی بات ہے۔
سوال: جمعیت کے کئی بڑے نام بعد میں دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل ہو گئے۔ جاوید ہاشمی، حسین حقانی، احسن اقبال، میاں عامر، کیا جماعت اسلامی جمعیت کے طلبہ کو مطمئن نہیں کر پاتی یا اس کا کینوس چھوٹا پڑ جاتا ہے؟
محمد عامر: کالجوں یونیورسٹیوں میں ہر طرح کے لوگ جمعیت میں آتے ہیں۔ ان کے لیے یہاں جگہ دستیاب ہوتی ہے لیکن جماعت اسلامی میں جاتے ہیں تو اس کا اسپیکٹرم، وہی آپ کی بات کہ کینوس چھوٹا ہو جاتا ہے۔ وہ ایک خاص طرح کی چھاپ رکھنے والی جماعت ہے اور بہت سے لوگ اس میں خود کو مطمئن نہیں پاتے۔ ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جماعت میں آپ کو ایک نظام کے تحت چلنا پڑتا ہے اور اس نظام کے تحت ہی اوپر آ سکتے ہیں۔ شاید بہت سے لوگ انتظار نہیں کر پاتے۔ انھیں ایسا لگتا ہے کہ وہ دوسری جماعتوں میں زیادہ جلدی آگے نکل سکتے ہیں۔ اس کی مثالیں موجود ہیں۔ مفاد کا عنصر بھی شاید آ جاتا ہے۔
سوال: ماضی میں طلبہ سیاست کرنے والے اس وقت بھی قومی سیاست کا حصہ ہیں اور بہت سے میڈیا کے بڑے نام بھی ہیں۔ یہ لوگ سیاست کو، صحافت کو تبدیل نہیں کر سکے۔ ان کی پیروی کرنے سے کیا حاصل ہو گا؟
محمد عامر: ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ سیاست میں اور میڈیا میں، بلکہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں اگر کوئی خیر ہے تو ان لوگوں کی وجہ سے ہے جو طلبہ یونینز سے آئے ہیں۔ اس میں جتنی بھی جماعتوں کے آپ نام لیتے جائیں، جاوید ہاشمی ہوں، لیاقت بلوچ ہوں، باقی جماعتوں کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ ہوں، ان کا کردار آپ کو ان لوگوں سے بہتر نظر آئے گا جو طلبہ سیاست سے نہیں آئے۔ اس لیے میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ ان لوگوں نے کوئی اثر نہیں ڈالا۔ انھوں نے مثبت اثر ڈالا ہے پاکستان کی سیاست میں بھی، میڈٰیا میں بھی اور دوسرے شعبوں میں بھی۔ کیونکہ بالکل نچلی سطح سے قیادت آئی ہے۔ آپ باقی باتیں چھوڑ دیں تو بھی یہ بڑی کامیابی ہے کہ غریب گھرانوں کے لڑکے طلبہ سیاست کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت میں آ گئے ہیں۔ ان کے سوا شاید اور کوئی سیاسی رہنما ایسی نہیں ہو گا جو غریب خاندان سے ہو۔ طلبہ یونین پر پابندی سے پہلے اور بعد کی سیاسی قیادت کو دیکھیں تو رواداری، برداشت، تحمل، ایک دوسرے کے نظریات اور قیادت کی عزت اور احترام میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ قومی سیاست میں یہ زوال یونینز پر پابندی کی وجہ سے آیا ہے۔