نیپال کے کوہ پیماؤں نے پاکستان میں موجود دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے-ٹو کو موسم سرما میں سر کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔
اس مشن میں 60 سے زائد کوہ پیماؤں نے حصہ لیا۔ جس میں پاکستان کی جانب سے محمد علی سد پارہ اور ان کے بیٹے بھی سخت سردی اور غیر موافق موسمی حالات کے باوجود مشن کو مکمل کرنے لے لیے سرگرم تھے۔
عالمی ریکارڈ بنانے والے کوہ پیماؤں کی قیادت نیپال کے چنگ داوا شرپا کر رہے تھے۔
دیگر کوہ پیماؤں میں نرمل پرجا کے علاوہ جلجی شرپا، مینگما ڈیوڈ شرپا، مینگما جی، سونا شیرپا، مینگما ٹنزی شرپا، پیم چیری شرپا، داوا تمبا شرپا، کیلی پیمبا شرپا، داوا تینجنگ شرپا شامل ہیں۔
موسم سرما میں کے-ٹو کو سر کرنے کے لیے کوہ پیما 19 دسمبر کو پاکستان پہنچے تھے جس کے بعد 29 دسمبر کو کے-ٹو بیس کیمپ پر ان کی آمد ہوئی تھی۔
نیپالی کوہ پیما نرمل پرجا نے کے ٹو سر کرنے کے بعد 'پیرا گلائیڈنگ' بھی کی۔
جون 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق کے ٹو کو 367 کوہ پیما سر کر چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مبصرین کا کہنا ہے کہ منفی 50 ڈگری سینٹی گریڈ میں، برفانی تودوں کے گرنے کا خطرہ، سرد اور تیز ہواؤں کی موجودگی ہمیشہ مشکل حالات پیدا کرتی ہے۔ کے-ٹو کو سر کرنے کے لیے حوصلے اور ہمت کے ساتھ ساتھ خوش قسمتی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ 8611 میٹر بلند چوٹی کے-ٹو کی اونچائی دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے صرف 200 میٹر کم ہے۔
کے ٹو کو عام طور پر سب سے خونخوار پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ اسے سر کرنے کی کوشش میں اب تک 80 سے زائد کوہ پیما موت کا شکار ہو چکے ہیں۔
'الپائن کلب' کے سیکریٹری کرار حیدری کا کہنا ہے کہ دنیا میں کُل 14 آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں ہیں جس میں سے کے-ٹو کے علاوہ باقی تمام موسم سرما میں سر کی جا چکی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ پاکستان کے لیے بہت اچھی بات ہے کیوں کہ عالمی وبا کے باوجود اس مہم جوئی کے لیے دنیا بھر کے 18 ممالک سے 59 کوہ پیما پاکستان آئے۔
کرار حیدری کے مطابق اب تک اس مہم کے دوران ایک ہسپانوی اور پولش کوہ پیماؤں کو طبیعت ناساز ہونے کی صورت میں پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے واپس لایا گیا۔ جب کہ باقی کوہ پیما اپنی منزل کی جانب بڑھتے رہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہفتہ کو موسم بہت خوشگوار تھا۔ دھوپ مکمل طور پر نکلی ہوئی تھی۔ تاہم سرد اور تیز ہواؤں کا امکان موجود تھا۔
کرار حیدری کا مزید کہنا تھا کہ اس کامیاب مہم سے پاکستان میں موسم سرما میں سیاحت کو مزید فروغ ملے گا۔ آئندہ بھی دوسرے کوہ پیما کے-ٹو سر کرنے کے لیے موسم سرما میں پاکستان آنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دنیا کے سب سے بلند پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ کو پاکستان کی جانب سے سر کرنے والے مہم جو کرنل عبد الجبار بھٹی کا کہنا ہے کہ کے-ٹو کو سر کرنا ہر لحاظ سے مشکل ہے۔
ان کے مطابق کوہ پیما دنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو کے-ٹو کے برعکس قدرے آسان ہدف سمجھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا کی بلند ترین چوٹی تو سر کر چکے ہیں جب کہ کے-ٹو ابھی تک سر نہیں کر پائے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انتہائی سخت اور دشوار گزار حالات میں موسم سرما میں کے-ٹو کو سر کرنا اس بات کی علامت ہے کہ دنیا میں کوئی بھی کام 'ناممکن' نہیں ہے۔