|
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کے ایک روز بعد واشنگٹن ڈی سی کا دورہ کر رہے ہیں۔
بائیڈن کے فیصلے نے غزہ جنگ کے اہم موڑ پر امریکہ اسرائیل کے تعلقات کو مزید غیر یقینی بنا دیا ہے۔
جون میں جب نیتن یاہو کے دورے کا اعلان کیا گیا تھا تو بہت سے لوگوں نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے بغیر دورے کے وقت پر سوال اٹھایا تھا۔
امریکی سیاست میں ممکنہ تبدیلی کے پیش نظر ایسا لگ رہا ہے کہ اسرائیلی رہنما کے دورے کا مقصد اگلی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کی بنیاد رکھنا ہے۔
امریکہ کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’’میں دو طرفہ حمایت حاصل کرنے کی کوشش کروں گا، جو اسرائیل کے لیے بہت اہم ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ دونوں اطراف کے دوستوں کو بتائیں گے کہ اس بات سے قطع نظر کہ امریکی عوام کس کو اپنا اگلا صدر منتخب کرتے ہیں، اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کا ناگزیر اور مضبوط اتحادی رہے گا۔
اسرائیل کی بار الان یونیورسٹی میں سیاسی شعبے کے سربراہ جوناتھن رین ہولڈ کہتے ہیں کہ اگرچہ عوامی طور پر نیتن یاہو ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار نائب صدر کاملا ہیرس اور ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والے ممکنہ مقابلے میں غیر جانب داری کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نیتن یاہو کس کی حمایت کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "عام طور پر ری پبلکن اسرائیل کے سیکیورٹی ایجنڈے کے زیادہ حامی ہیں۔"
ان کے بقول وہ اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت اور فلسطینیوں کے لیے اس کی پالیسیوں کو زیادہ معاف کرنے والے ہیں۔ایسا خاص طور پر ٹرمپ کے بارے میں سچ ہے، جن کی انتظامیہ کی اسرائیل نواز پالیسیاں بہت غیر معمولی تھیں۔
خیال رہے کہ ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت میں ’ابراہم اکارڈ‘ کی ثالثی کی جس کے تحت اسرائیل نے اپنے کچھ عرب پڑوسیوں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لایا۔
ٹرمپ نے تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ بھی متنازعہ علاقے یروشلم میں منتقل کیا اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے الحاق کو تسلیم کیا۔
مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں اسرائیلی امور کے سینئر فیلو نمرود گورین کہتے ہیں کہ امریکہ میں رہتے ہوئے نیتن یاہو ٹرمپ سے ملاقات کرنے کی درخواست کر رہے ہیں جس کا جزوی طور پر اس دعوے کو مسترد کرنا ہے کہ ان کے اور سابق صدر کے درمیان کوئی کشیدگی پائی جاتی ہے۔
ٹرمپ نے اس وقت بدمزگی محسوس کی جب نیتن یاہو نے بائیڈن کو 2020 میں ان کی جیت پر مبارک باد دی۔
ٹرمپ نے اسرائیل کو خبردار بھی کیا ہے کہ وہ امن کی طرف واپس لوٹے اور لوگوں کی اموات روکے۔
ابھی تک ٹرمپ کی انتخابی مہم نے نیتن یاہو کی سابق صدر سے ملاقات کے لیے درخواست کی تصدیق کرنے کے بارے میں وائس آف امریکہ کو کوئی جواب نہیں دیا۔
نیتن یاہو کی نائب صدر کاملا ہیرس سے ملاقات
امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس کے معاون کے مطابق نیتن یاہو صدر بائیڈن سے طے شدہ ملاقات کے علاوہ ہیرس سے وائٹ ہاؤس میں ملیں گے۔
کاملا ہیرس کے معاون کے مطابق نائب صدر کا اپنے پورے کریئر کے دوران اسرائیل کی سلامتی کے لیے ایک غیر متزلزل عزم رہا ہے۔
SEE ALSO: نیتن یاہو کی واشنگٹن روانگی، تجزیہ کاروں کی اس دورے میں دلچسپینائب صدر ہیرس کے ملک کی یہودی برادری سے بھی مضبوط تعلقات ہیں۔ ان کے شوہر، جوکہ سیکنڈ جینٹل مین ہیں، یہودی ہیں اور انہوں نے یہود دشمنی کا مقابلہ کرنے کی انتظامیہ کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
تاہم، بدھ کو کانگریس سے نیتن یاہو کی تقریر کے دوران سینیٹ کے چیمبر کی صدارت کرنے کے بجائے، کاملا ہیرس سیاہ فام گروہ ’زیٹا فائی بیٹا‘ سے خطاب کے لیے ریاست انڈیانا کے شہر انڈیانا پولس جائیں گی۔
ڈیموکریٹک امیدواروں کو ووٹ دیتے والے رویتی طور پر ترقی پسندوں، عرب امریکیوں اور امریکی مسلمانوں میں غزہ جنگ پر پائے جانے والے غصے کے تناظر میں نیتن یاہو کی تعریف کرنا اچھا دکھائی نہیں دے گا۔
کانگریس کے درجنوں ڈیموکریٹک ارکان نیتن یاہوکی تقریر کا متوقع طور پر بائیکاٹ کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی تھنک ٹینک کارنیگی انڈومنٹ سے وابستہ ملر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کاملا ہیرس کی حکومت میں امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ پر پالیسی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئے گی اور امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی حمایت کے سوال پر یہ نسبتاً پہلے کی طرح برقرار رہے گی۔
لیکن ملر کے بقول ہیرس اسرائیل کی فلسطینی علاقوں میں آبادکاری کے بارے میں کہیں زیادہ سخت بیان بازی اپنائیں گی اور وہ فلسطینیوں کی تکالیف اور حقوق کے معاملے پر بہت زیادہ ہمدرد ہوں گی۔
نائب صدارت کے دوران ہیرس کے اہم خارجہ پالیسی کے امور پر تبصرے بڑی حد تک بائیڈن کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ منتخب ہونے پر اپنا نظریہ اپنائیں گی۔