پاکستان کی وفاقی حکومت نے صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کے لیے تشکیل دیے گئے دسویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے اراکین میں ردوبدل کے علاوہ کمیشن کے طریقہ کار میں بھی تبدیلیاں کی ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں عدالت میں کمیشن سے متعلق جاری کارروائی میں خفت سے بچنے کے لیے کی گئی ہیں۔
خیال رہے کہ حکومت نے دو ماہ قبل جاری کیے گئے نوٹی فکیشن میں حال ہی میں ردوبدل کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور وفاقی سیکریٹری خزانہ کی کمیشن میں تقرری کو ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔
نوٹی فکیشن کے مطابق مشیر خزانہ کی جگہ ایک بار پھر وفاقی وزیر خزانہ کو کمیشن کا چئیرمین مقرر کرنے کی منظوری دی گئی، لیکن وزیر خزانہ نہ ہونے کے باعث امکان ہے کہ کسی منتخب رُکن اسمبلی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جائے گا۔
دوسری جانب کمیشن کے اراکین کی تعداد بھی 11 سے کم کر کے نو کر دی گئی ہے۔
نو رکنی کمیشن میں ایک اور تبدیلی بلوچستان کے حوالے سے بھی سامنے آئی ہے جس کے تحت صوبے سے ڈاکٹر قیصر بنگالی کو کمیشن کا رکن منتخب کیا گیا ہے۔ اس سے قبل بلوچستان سے ڈاکٹر جاوید جبار کمیشن کے رکن تھے لیکن صوبے میں اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کی وجہ سے انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس میں تبدیلی
صدر مملکت کی منظوری کے بعد وفاقی وزارتِ خزانہ کے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے تحت کمیشن کے پہلے سے طے شدہ ٹرمز آف ریفرنسز میں بھی تبدیلی کے بعد اس میں سے کئی شقوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔
وفاق کے زیرِ انتظام سرکاری اداروں کے نقصانات کم کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مل کر نقصانات کا ازالہ کرنے کی شق کو بھی نئے نوٹی فکیشن سے خارج کر دیا گیا ہے۔
نئی شق کے تحت قومی اہمیت کے حامل منصوبوں میں وفاق اور صوبوں کی جانب سے منصوبے کے اخراجات مل کر برداشت کرنے کو کمیشن کے نئے ٹرمز آف ریفرنس میں شامل کیا گیا ہے۔
دوسری جانب حکومت نے 12 مئی کو جاری کیے گئے کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس میں شامل ایک اور شق کو بھی ختم کردیا ہے جس کے تحت کمیشن کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور حال ہی میں خیبر پختونخوا میں شامل کیے گئے قبائلی علاقہ جات میں وسائل کی فراہمی کے لیے اخراجات کے تعین پر بھی غور کرنا تھا۔
نئے نوٹی فکیشن کے تحت بین الصوبائی معاملات میں وفاق اور صوبوں کے درمیان اخراجات مل کر برداشت کرنے کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حاصل قرضے حاصل کرنے کے اخراجات، وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو مختلف مد میں دی جانے والی سبسڈیز اور ٹیکس کی تقسیم سے متعلق امور پر غور کرنا کمیشن کے اختیارات میں شامل ہو گا۔
یہ تبدیلیاں کیوں کی گئیں؟
ملک کے معاشی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کمیشن کے ارکان میں تبدیلی کا براہ راست تعلق اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت اس درخواست سے ہے جس میں حکومت کے پرانے نوٹی فکیشن کو چیلنج کیا گیا ہے۔
حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خرم دستگیر کی جانب سے دائر اس پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ کمیشن کے ارکان کے طور پر مشیر خزانہ کی تعیناتی آئین کی خلاف ورزی ہے۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ممبران کی نامزدگی کے لیے صوبوں کے گورنرز سے بھی مشاورت نہیں کی گئی جو کہ قانون کے تحت لازم ہے۔
معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق چوں کہ مشیرِ خزانہ کی کمیشن میں تقرری کی اجازت آئین میں موجود نہیں۔ لہذٰا اگر عدالت مشیرِ خزانہ کی تقرری کالعدم قرار دیتی تو اس سے حکومت کے لیے بحرانی کیفیت پیدا ہوتی اور معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جا پہنچتے۔
اُن کے بقول اسی لیے حکومت عدالت میں نظر آنے والی سبکی سے بچنا چاہتی ہے جس کے لیے نوٹی فکیشن میں فوری ردو بدل کیا گیا ہے۔
عابد سلہری کہتے ہیں کہ حکومت ستمبر، اکتوبر میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات سے قبل اس عمل کو شروع کرنا چاہتی ہے تاکہ مذاکرات کے دوران یہ بتایا جا سکے کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان مالیاتی ایوارڈ کے معاملے پر کیا پیش رفت ہوئی ہے۔
عابد سلہری کے مطابق بلوچستان سے کمیشن کے ممبر کی تبدیلی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ڈاکٹر جاوید جبار سماجی شعبے میں خدمات انجام دینے والے انتہائی متحرک شخص تھے جبکہ ڈاکٹر قیصر بنگالی بھی انتہائی منجھے ہوئے معیشت دان ہیں جو اس سے قبل بھی این ایف سی میں بلوچستان کا کیس لڑ چکے ہیں۔
گزشتہ این ایف سی ایوارڈز میں کیا طے ہوا تھا؟
آخری بار 2010 میں وفاق اور صوبوں کے درمیان ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر اتفاق ہوا تھا تاہم آٹھواں اور نواں کمیشن اس حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہا تھا۔
ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت پہلی بار صوبوں کا وسائل میں حصہ 49 فی صد سے بڑھا کر بتدریج 57 اعشاریہ 5 فی صد کیا گیا تھا جب کہ صوبوں کو ملنے والی رقوم کے لیے روایتی طور پر اپنائے جانے والے محض آبادی کے معیار کو تبدیل کر کے اس میں غربت اور پسماندگی کے پہلو کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
اسی طرح وفاقی حکومت نے محصولات جمع کرنے کے چارجز کو کم کر کے 5 فی صد سے ایک فی صد تک لانے کا وعدہ کیا تھا جس سے صوبوں کو بڑا فائدہ بھی پہنچا۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے خیبر پختنوخوا کو قابلِ تقسیم رقوم میں سے ایک فی صد زائد دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔
اس نئے فارمولے کے تحت پنجاب کے پاس 51.4 فی صد سندھ 24.55 فی صد، خیبر پختونخوا 14.62 فی صد جب کہ بلوچستان کو قابل تقسیم رقوم میں سے 9.09 فی صد دینے پر اتفاق ہوا تھا۔
پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا نے اپنے حصے کم کر کے بلوچستان کو ملنے والی رقوم میں اضافہ کیا تھا۔
اس ایوارڈ میں طے کیا گیا تھا کہ صوبے اگر چاہیں تو سروسز پر سیلز ٹیکس عائد کرسکتے ہیں۔ اسی طرح صوبوں کو رئیل اسٹیٹ اور زراعت پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنا تھا جب کہ وفاقی حکومت کو بھی محصولات میں اضافہ کرنا تھا جوکہ اب تک نہیں ہوسکا۔
معاشی اور سیاسی ماہرین کے مطابق صوبوں اور وفاق کے درمیان مالیاتی مسائل ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے جس پر اتفاق رائے پیدا کرنا آسان تو نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں۔
ایک جانب جہاں آئینی لحاظ سے صوبوں کو ملنے والے حصے کو کم نہیں کیا جاسکتا، وہیں وفاقی حکومت کو یہ شکوہ بھی ہے کہ اس کے پاس صوبوں کو ان کا حصہ دینے جانے کے بعد قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کے بعد حکومتی اُمور چلانے کے لیے بہت کم بچتی ہے۔