سعودی عرب کے ایک سفیر نے کہا ہے کہ ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو اسی صورت میں معمول پر لائے گا جب اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان دو ریاستی حل حقیقت بنے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کا ایک اہم ہدف اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔
اس سے قبل متحدہ عرب امارات اور بحرین نے 2020 میں ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔
برطانیہ میں سعودی سفیر شہزادہ خالد بن بندر نے 'بی بی سی ریڈیو 4' کو بتایا کہ مملکت 2002 کے عرب امن اقدام کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ امن چاہتی ہے لیکن 'فلسطینی عوام کی قیمت' پر نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاض ایک طویل عرصے سے اس پر کام کر رہا ہے اور اسرائیل کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم فلسطینی ریاست کے بغیر سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ (تعلقات قائم کر کے) نہیں رہ سکتا۔
SEE ALSO: اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والے عرب ممالک میں عوامی مخالفت بڑھنے لگیشہزادہ خالد بن بندر نے کہا کہ غزہ جنگ سے پہلے سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے قریب تھا، لہذا ہم "فلسطینی ریاست کے قریب تھے" لیکن ان دونوں مقاصد کا حصول ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔
واشنگٹن میں قائم نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار نکولس ہیرس کہتے ہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی "سعودی قیمت بڑھ گئی ہے۔" سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حلقے کا ایک بڑا حصہ سعودی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ نوجوان فلسطینی کاز کے زبردست حامی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو فلسطینی ریاست کے قیام کو قبول کریں گے؟
تجزیہ کار ہیرس کے مطابق اب یہ بالکل واضح ہے کہ خلیج میں اماراتیوں، بحرینیوں سمیت دیگر ملکوں میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے بارے میں ناقابلِ یقین مایوسی پائی جاتی ہے۔
SEE ALSO: سعودی عرب کا اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کا منصوبہ معطل کرنے کا فیصلہانہوں نے کہا کہ ابراہم معاہدہ نیتن یاہو کے ساتھ خطرہ مول لینے کی ایک مثال ہے، اور خلیجی ممالک اب محسوس کر رہے ہیں کہ انہوں نے جو سوچا تھا وہ غلط تھا۔
نکولس ہیرس کے مطابق نیتن یاہو کی اتحادی حکومت کی طرف سے اختیار کی گئی انتہائی دائیں بازو کی پالیسیوں نے نہ صرف عرب ریاستوں بلکہ امریکہ کو بھی بے چین کر دیا ہے، جیسا کہ اس خیال پر زور دینا کہ وہاں کبھی فلسطینی ریاست نہیں ہوگی، مغربی کنارے میں بستیوں کو وسعت دینے کے بارے میں بات کرنا ( اور) غزہ میں نئی بستیاں بنانا۔
اسرائیلی صحافی بارک راویڈ نے خبروں کی امریکی ایکسیوس نامی ویب سائٹ پر ایک مضمون میں لکھا کہ، "سعودی عرب کے مطالبات بائیڈن انتظامیہ کے مطالبات کے مطابق ہیں۔"
انہوں نے اس سلسلے میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کی اس ہفتے اسرائیلی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
راویڈ نے لکھا کہ بلنکن نے یہ بھی واضح کیا کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک غزہ کے حل میں، بنیادی طور پر تعمیر میں، فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف راہ کے بغیر شامل نہیں ہوں گے۔
ان کے مطابق، اگر نیتن یاہو اس بات پر راضی ہو جاتے ہیں، تو وہ ممکنہ طور پر اپنے نام کے ساتھ ایک تاریخی امن معاہدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ( نیتن یاہو) ایسا نہیں کرتے تو امکان ہے کہ انہیں غزہ کے بحران سے تنہا ہی نمٹنا ہو گا۔
ڈیو گیولاک، وی او اے نیوز