گزشتہ ہفتے ایک فوجی پریڈ میں متعارف کروائے گئے، شمالی کوریا کے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے بارے میں سیکیورٹی سے متعلق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ امریکی دفاعی میزائلوں پر حاوی ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے اس میزائل کو ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کرنے کے لیے امریکہ کو مہنگے انٹرسیپٹر بنانے پڑیں گے۔
شمالی کوریا کے اس سب سے بڑے آئی سی بی ایم کی نمائش سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر ایک نیا سٹریٹجک ہتھیار ہے جس کا وعدہ ملک کے لیڈر کم جون اُن نے اِس سال کا آغاز پر کیا تھا۔
اس نئے میزائل کی اڑان کا ابھی تجربہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ علم ہے کہ اس کی رینج کہاں تک ہے۔ تاہم شمالی کوریا پہلے ہی سن 2017 میں ایک میزائل کا تجربہ کر چکا ہے جو براعظم امریکہ میں کہیں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا غالباً یہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ صرف ایک میزائل پر کئی جوہری ہتھیار نصب کئے جا سکتے ہیں۔ اس سے امریکہ کے میزائلی دفاعی نظام کیلئے اسے راستے میں روک کر تباہ کرنا مزید مشکل اور مہنگا ہو گیا ہے۔
تاہم امریکی عہدیداروں نے اُن تمام خدشات کو مسترد کر دیا ہے کہ شمالی کوریا تیزی سے اپنے میزائل پروگرام کو ترقی دے رہا ہے تاکہ اس کے بنائے ہوئے ہتھیار امریکہ کی سر زمین پر نصب میزائلی دفاعی نظام کو دھوکہ دے سکیں۔ یہ امریکی دفاعی نظام ریاست الاسکا اور کیلیفورنیا میں نصب ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس نئے میزائل کا نام سوانگ 16 رکھا جائے گا۔ تاہم اس میں کچھ سٹرٹیجک نقائص بھی موجود ہیں۔
ویانا میں قائم اوپن نیوکلیئر نیٹ ورک کی ڈپٹی ڈائریکٹر میلیسا ہینہم کہتی ہیں کہ اگر صرف ایک میزائل میں متعدد بم ایک ساتھ آ رہے ہیں، تو انہیں راستے میں روکنے کیلئے بھی متعدد انٹرسیپٹرز چاہیے ہوں گے۔
میلیسا ہینہم کہتی ہیں کہ نیا آئی سی بی ایم اپنے حجم میں بظاہر اتنا عظیم بڑا ہے کہ اس کے ساتھ نہ صرف متعدد وار ہیڈ آئیں گے، بلکہ اس میں دھوکہ دینے والے آلات بھی ہوں گے،جس سے میزائلی دفاعی نظام دھوکہ کھا سکتا ہے۔
ہینہم کہتی ہیں کہ ایسے میزائل سستے میں نہیں بنتے۔ ان پر بہت خرچ آتا ہے، لیکن اب جتنے اخراجات امریکہ اپنے میزائلی دفاعی نظام پر خرچ کرے گا، اس سے یہ کہیں سستا ہے۔
اس سال جنوری میں امریکی فوج کے وائس چیئرمین جائنٹس چیف آف سٹاف جنرل جان ہائیٹن نے کہا تھا کہ انہیں شمالی کوریا کےخلاف، امریکہ کے میزائلی دفاعی نظام کی اہلیت پر سو فیصد اعتماد ہے۔
غیر جانبدار دفاعی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر شمالی کوریا اپنے نئے میزائل پر متعدد وار ہیڈ نصب کرتا ہے، تو پھر انہیں امریکہ کے میزائلی دفاعی نظام کی اہلیت کے بارے میں شک ہے۔
تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ میزائل اتنا ہمہ گیر نہیں ہے جتنا کہ نظر آتا ہے۔
اس میزائل کو داغنے کیلئے 22 پہیوں والا لانچر چاہئیے، جس کے دائیں بائیں مڑنے کی صلاحیت کا بھی علم نہیں ہے۔ یہ اتنی بڑی گاڑی ہے کہ اسے شمالی کوریا کی زیادہ تر سڑکوں پر چلانا آسان نہیں ہو گا، جن کی عموماً مرمت نہیں کی جاتی اور ان کی حالت خراب ہے۔
SEE ALSO: کرونا کی عالمگیر وبا کے ماحول میں شمالی کوریا کے نئے میزائل تجرباتمیلیسا ہینہم کہتی ہیں کہ اتنے عظیم الجثہ میزائل کا مطلب ہے کہ اس کے ساتھ ایندھن سے بھرے ٹرکوں اور ایک کرین پر مبنی ٹیم کی ضرورت ہو گی جو اس میزائل کو سیدھا کھڑا کر سکے۔
ہینہم کہتی ہیں کہ اسے کرین سے کھڑا کرنے کے بعد اس میں ایندھن بھرا جائے گا، جس میں کئی گھنٹے لگ جائیں گے، اور اس دوران جاسوس ذرائع امریکہ کو اس کے بارے میں مطلع کر دیں گے۔