’سفید گاڑی کو نیک بختی سمجھنے والا ڈاکو بلال ثابت سفید گاڑی میں ہی مارا گیا‘

gun

"پولیس کا ہر وہ افسر جو اس کا پیچھا کرتا تھا، وہ اس کے گھر پہنچ جاتا تھا اور گھر والوں کو دھمکانا شروع کر دیتا تھا۔ اپنے پیر و مرشد کے کہنے پر جمعہ، ہفتہ اور اتوار کی راتیں اس کے لیے خوش نصیبی کی راتیں ہوتی تھیں، جن میں سے وہ ایک رات میں کبھی کبھی آٹھ ڈکیتیاں بھی کرلیتا تھا۔ سفید رنگ کی گاڑی کو خوش نصیبی کی علامت سمجھنے والا سفید رنگ کی گاڑی میں ہی مارا گیا۔"

یہ الفاظ ہیں ایک پولیس افسر کے جو گزشتہ کئی برس سے راولپنڈی میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران ہلاک ہونے والے ڈکیت بلال ثابت کا پیچھا کر رہے تھے۔ مذکورہ پولیس افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے مگر بلال کے ماضی، وارداتوں اور طریقۂ واردات کے بارے میں وائس آف امریکہ کو مکمل تفصیلات فراہم کی ہیں۔

پولیس افسر زبیر (فرضی نام) ایک طویل عرصے تک بلال کا پیچھا کرتے رہے اور ایک بار ایسا مقابلہ ہوا کہ بلال نے ان کی پوری ٹیم پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ پولیس اہلکاروں کو گولیاں کھاکر دریا میں چھلانگیں لگانا پڑیں۔

بلال ثابت معروف ڈکیت کیسے بنا؟

زبیر کے مطابق بلال کا تعلق پشاور کے علاقے پشتخرہ سے تھا اور تھانے سے اس کا گھر کوئی 300 میٹر کے فاصلے پر تھا۔ اس کے والد ایک سرکاری ادارے کے ریٹائرڈ ملازم تھے۔ بلال نے کم عمری میں ہی چھوٹی وارداتیں شروع کیں۔ بعد ازاں سال 2013 میں اس کا کار چور گینگز سے رابطہ ہوا اور وہ گاڑیاں چوری کرنے لگے۔

انہوں نے بتایا کہ بلال نے سینکڑوں گاڑیاں چوری کیں اور اسلام آباد، راولپنڈی سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں سے چوری کرکے انہیں صوابی، مردان اور دیگر علاقوں میں فروخت کیا۔اسی دوران 2014 میں پولیس نے اسےچوری کی گاڑی کے ساتھ پکڑا جس کے بعد وہ اگلے تین سال تک جیل میں قید رہا۔ بعد ازاں سال 2017 میں وہ باہر آیا اور اپنا گینگ بنا کر ڈکیتیاں کرنے لگا۔

بلال ثابت کے بارے میں زبیر نے بتایا کہ 2018 میں اس کا نام ڈکیتی کی مختلف وارداتوں میں سامنے آنے لگا۔اسی سال اس نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں وارداتیں شروع کیں۔

مزید پڑھیے شمالی سندھ اور جنوبی پنجاب کے ڈکیت گینگ پولیس کے ہاتھ کیوں نہیں آتے؟

زبیر کے مطابق بلال گینگ ایک رات میں کبھی کبھی آٹھ سے نو وارداتیں بھی کامیابی سے کرلیتا تھا۔ یہ گینگ پشاور سے راولپنڈی آتے ہوئے پہلی واردات واہ صدر کے علاقے میں کرتا جس کے بعد دوسری ٹیکسلا، تیسری نصیر آباد، پھر سول لائن، دھمیال اور مختلف علاقوں میں ڈکیتیاں کرتا اور غائب ہوجاتا تھا۔بلال ثابت گینگ کے پانچ سے چھ لوگ ہوا کرتے تھے اور یہ چوروں کی طرح چھپ کر واردات نہیں کرتے تھے بلکہ لاتیں مارکر دروازے توڑ کر گھروں میں گھس جایا کرتے تھے۔

بلال پولیس سے کیسے بچتا رہا؟

پولیس افسر نے بتایا کہ یہ لوگ موبائل فون پر گولڈن نمبر استعمال کیا کرتے تھے۔ان نمبرز کو دیکھ کر عام طور پر پہلا خیال یہی آتا ہے کہ یہ نمبرز کسی اہم شخصیت کا ہے کیوں کہ عام آدمی موبائل فون کے گولڈن نمبر استعمال نہیں کرتا، جس کی وجہ سے عموماً ایسے نمبرز پر شک نہیں کیا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ پانچ ،چھ موبائل فون خریدتے تھے اور وارداتوں کے بعد واپسی پر موبائل فون اور سمز توڑ کر کسی کوڑے کے ڈھیر یا نالے میں پھینک دیا کرتے تھے۔

زبیر بتاتے ہیں کہ پولیس کو اس گروپ کے بارے میں معلومات اس طرح ملی کہ ان کا ایک ساتھی اپنی غلطی سے پکڑا گیا۔ اس شخص نے واردات کے دوران استعمال ہونے والے نمبر سے اپنے گھر فون کردیا تھا۔جیو فینسنگ میں یہ نمبر آیا اور جب ٹریک کیا گیا تو پولیس اس کے گھر پہنچی جس کے بعد بلال ثابت کے گھر پہنچنے میں کامیاب رہے۔

انہوں نےکہا کہ 2018 میں پولیس نے اس گینگ کے چار افراد پکڑے تھے۔ پشتخرہ میں پولیس ان کے گھر پہنچی لیکن ایک روپیہ بھی برآمد نہ کرسکی۔بعد ازاں بلال کا اہم ساتھی نور اللہ افغانی افغانستان سے واپس آیا تو پولیس نے اسے بھی پکڑ لیا۔

پولیس افسر نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد بلال نے ہمارے مدعی مقدمہ کو فون کیا اور اس کے گھر پر فائرنگ کی، اس کے بچوں کی تصاویر بھیجیں اور کہا کہ "تم نے ہمارے گھروں پر چھاپے پڑوائے ہیں، اب اپنے بچوں کو بچالو جس کے بعد مدعی ہی مقدمے سے بھاگ گیا اور کیس کمزور ہوگیا۔"

اس صورتِ حال سے پولیس کو احساس ہوا کہ یہ گینگ تو جنونی ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے بعد کی وارداتوں میں پولیس کو خوف ناک اشارے ملے۔

زبیر بتاتے ہیں کہ یہ گینگ ہر واردات میں فائرنگ کرنے لگا۔ مورگاہ میں ایک واردات میں نانا اور نواسی کو فائرنگ کرکے زخمی کیا گیا۔ راولپنڈی میں ڈیفنس کے علاقے میں ایک حساس ادارے کے افسر کے گھر ڈکیتی کی گئی۔ ایک اور اہم ادارے کے اعلیٰ افسر کے گھر واردات کی جب کہ سابق گورنر خیبرپختونخوا لیفٹننٹ جنرل اورکزئی کے راولپنڈی کے گھر میں ڈکیتی کی اور قیمتی سامان لوٹ لیا۔

پشاور کے علاقے پہاڑی پورہ میں پنجاب پولیس گینگ کے خلاف کارروائی کے لیے پہنچی تو وہاں زبیر کے مطابق پولیس ٹیم پر 700 ے زائد راؤنڈ فائر کیے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ پشاور میں ہلاک ہونے والے ایس ایچ او شکیل کا قتل بھی اسی گینگ نے کیا ۔اس کا قصور یہ تھا کہ مردان میں کار چوروں کی گرفتاری کے لیے شکیل نے مدد فراہم کی تھی۔

پولیس ترجمان کے مطابق ایک بلال ثابت کو ایک مشترکہ آپریشن میں ہلاک کردیا گیا۔

زبیر کے بقول شکیل کے قتل کو پہلے دہشت گردی کی واردات سمجھا گیا مگر واقعے کی ویڈیو فوٹیج میں سفید رنگ کی گاڑی دیکھ کر انہیں اندازہ ہوا کہ یہ بلال ثابت گینگ ہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ جہاں نئی گاڑی دیکھ لیتے اسے چھوڑتے نہیں تھے۔یہ لوگ کراچی جا کر بھی وارداتیں کرتے تھے لیکن ان کا پسندیدہ شہر اسلام آباد ہی رہا۔

'بلال حد سے زیادہ توہم پرست تھا'

پولیس افسر زبیر کے مطابق بلال ثابت انتہائی توہم پرست تھااور اسے ایک پیر نے بتا رکھا تھا کہ جمعہ، ہفتہ اور اتوار اس کے لیے خوش نصبیبی کے دن ہیں۔ہر جمعے کی شام کو وہ لازمی واردات کرتا تھا۔پولیس کو بھی پتا ہوتا تھا کہ ہر جمعہ، ہفتہ یا اتوار کو واردات ہونی ہے لیکن اس کی دہشت اور اس کے معلومات کے ذرائع بہت زیادہ تھےجس کی وجہ سے اسے کئی برسوں تک روکا نہیں جاسکا۔

انہوں نے کہا کہ بلال ثابت کبھی واردات کرکے فوری پشاور روانہ نہیں ہوتا تھا بلکہ تینوں دن وارداتیں کرنے کے بعد پیرکے روز واپس جاتا تھا۔

زبیر کہتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ قسمت بہادروں پر مہربان ہوتی ہے۔ اس کیس میں بھی شاید یہی بات تھی کہ بلال ثابت اس قدر دیدہ دلیری سے واردات کرتا تھا کہ ہر بار قسمت اس کا ساتھ دیتی تھی اور وہ بھاگنے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔

ان کے بقول بلال نہ شراب پیتا تھا نہ سگریٹ، اسے سفید رنگ کی گاڑیاں بہت زیادہ پسند تھی۔ اس نے جو واردات کی وہ سفید رنگ کی گاڑی میں کی،اس کے پیر نے اس کی خوش نصیبی کا رنگ سفید قرار دیا تھا۔

'پولیس نے بھی بلال ثابت کے ساتھ کچھ زیادتیاں کیں'

بلال کو معلومات ملنے سے متعلق زبیر کا کہنا تھا کہ پنجاب اور اسلام آباد سے جب بھی پولیس اہلکار خیبرپختونخوا پہنچتے تھے تو بلال ثابت کو فوراً پتا چل جاتا تھا، جس کے بعد وہ وہاں سےغائب ہوجاتا تھا۔

زبیراس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پولیس نے بھی بلال ثابت کے خلاف بعض زیادتیاں کیں۔بلال کی بیوی اور گھر کی خواتین کو بعض کیسز میں اشتہاری قرار دیا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ پولیس کے زیادہ خلاف ہوگیا تھا اور انہیں براہِ راست نشانہ بنانے لگا تھا۔

پولیس افسر زبیر کے مطابق بلال ثابت اس حد تک نڈر ہو چکا تھا کہ اسلام آباد میں بحریہ ٹاؤن کے علاقے میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور بلال ثابت گینگ کے دو ساتھی مارے گئے جس کے بعد اس نے اس واقعے میں شامل پولیس اہلکاروں کو پیغام بھجوایا کہ "میرے دو ساتھی مرے ہیں، ان کے قصاص میں تین، تین کروڑ روپے ادا کرو، ورنہ سب کے خاندانوں کو اڑا دوں گا۔"

انہوں نے بتایا کہ ایک چھاپے کے دوران پولیس نے پشتخرہ پشاور میں جاکر بلال کے گھر میں توڑ پھوڑ کی۔ اس واقعے کے دو روز بعد ان کے گھر کے عقب میں ایک گھر میں ڈکیتی کی واردات ہوئی اور جس طرح پولیس نے بلال کے گھر میں توڑ پھوڑ کی تھی بالکل اسی طرح اس گھر میں توڑ پھوڑ کی گئی۔

SEE ALSO: اسلام آباد کی سیکیورٹی؛ ’مہنگائی اور بے روزگاری میں وارداتیں بڑھنا انوکھی بات نہیں‘

زبیر کا کہنا تھا کہ بلال ثابت اس قدر طاقت ور بن چکا تھا کہ خیبرپختونخوا میں جو بھی کار چور گاڑیاں چوری کرتے تھے ان میں سے بیشتر اسی کو وہاں گاڑیاں بیچتے تھے۔ ان کے بقول وہ کہتے تھے کہ اگر بلال کو گاڑی نہیں بیچی تو وہ انہیں مار دے گا۔

بلال ثابت کی وارداتوں کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے زبیر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف-10 میں سینیٹر نزہت صادق کے گھر ڈکیتی ہوئی، اس گھر کے سامنے آئی جی اسلام آباد کا گھر تھا۔مگر بلال وہاں سے بھی ڈکیتی کرکے بھاگ گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ بلال کو اطلاع ملی کہ ٹیکسلا کے قریب ایک گھر میں منشیات موجود ہے۔ اس نے وہاں ڈکیتی کی اور ایک من آئس لوٹ کر بھاگ گیا۔

بلال ثابت کی جانب سے لوٹی ہوئی دولت کے بارے میں بتاتے ہوئے زبیر کا کہنا تھا کہ بلال ثابت ارب پتی بن چکا تھا۔ اس نے مختلف ناموں سے اربوں روپے کی جائیدادیں خریدی ہوئی تھیں۔ لیکن وہ دولت کی خواہش کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں پستول رکھ کر لوگوں کو مارنے کی عادت میں مبتلا تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ بلال کوپیسے کی ضرورت نہیں تھی مگر وہ وارداتیں اپنی عادت کی وجہ سے کرتا تھا۔ اس کا نیٹ ورک اب اتنا بڑا ہوچکا تھا کہ خیبرپختونخوا میں اس کے کئی ساتھی اور کارلفٹر کام کرتے تھے اور یہ صرف سرپرستی کرتا تھا۔ اب یہ لوگ جس طرح کام کرتے انہیں روکنا کافی مشکل ہو گیا تھا ۔

زبیر نے بتایا کہ بلال نے ایک ہفتے قبل ڈی سی راولپنڈی کے گھر کے قریب گاڑی چھینی، یہ گاڑی ایوب پارک کے گیٹ کے سامنے چھینی گئی جہاں سے صرف 200 فٹ کے فاصلے پر آرمی چیک پوسٹ تھی۔

بلال ثابت مارا کیسے گیا؟

پولیس افسر زبیر کہتے ہیں کہ اس کی ہلاکت کے بارے میں پولیس اگرچہ اسے مقابلہ کہہ رہی ہے لیکن اس کی موجودگی کی اطلاع پر اسے مارنے کا ہی پروگرام تھا۔ بلال کی موجودگی کا پتا ایسے چلا کہ اس نے تین چار دن پہلے اسلام آباد سے ایک 'سٹی' گاڑی چھینی تھی، جس انداز میں یہ گاڑی چھینی گئی تھی اس سے شک ہوا کہ یہ بلال ثابت نے چھینی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس گاڑی میں دو ٹریکر لگے ہوئے تھے۔ بلال نے ایک ٹریکر تو اتار دیا لیکن دوسرے ٹریکرکا اسے علم نہ تھا، جس پر انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اسے ٹریک کرنا شروع کردیا۔

زبیر کے بقول یہ گاڑی راولپنڈی میں ایک جگہ موجود تھی، پولیس نے اس گاڑی پر نظر رکھی اور گاڑی وہاں سے ہٹانے کے بجائے انتظار کرنا شروع کردیا۔

زبیر نے بتایا کہ پولیس کو یہ معلوم تھا کہ بلال ثابت پیر کے روز چھینی ہوئی گاڑی کو وہاں سے نکالنے کے لیے لازمی آئے گا۔ بلال کے آنے سے قبل ہی پولیس کمانڈوز اس جگہ چھپ گئے تھے اور جیسے ہی وہ آیا اسے وہاں ختم کردیا گیا۔

اس سوال پر کہ بلال ثابت کو گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ زبیر کا کہنا تھا کہ اسےگرفتار کرنے کی کوشش نہ کرنے کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ بلال کے پاس ہر وقت بھاری اسلحہ ساتھ ہوتا تھا اور وہ ہروقت مارنے کے لیے تیار رہتا تھا۔ اگر اس کو پکڑنےکی کوشش بھی کی جاتی تو دو سے تین پولیس اہلکاروں کا مرنا معمولی بات تھی۔ اس نے گرفتاری دینی نہیں تھی البتہ پولیس کا نقصان ہوجانا تھا۔

زبیر نے مزید بتایا کہ بلال نے بعض ڈکیتیوں میں ایسی حرکتیں کی تھیں کہ وہ سب سن کر کوئی بھی پولیس اہلکار اسے زندہ دیکھنے کو تیار نہیں تھا۔ اس لیے اسے انجام تک پہنچا دیا گیا۔

اس بارے میں اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بلال ثابت انٹیلی جنس بیورو کی معاونت سے ہونے والے ایک پولیس مقابلے میں 27 جون بروز پیر کو ہلاک ہوگیا ہے۔

پولیس حکام نے یہ کارروائی کرنے والے اہلکاروں کو شاباشی دی ہے۔

بلال کے مارے جانے کے بعدمنگل کو اس کے بھائی یاسر ثابت کو بھی ایک انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا گیا ۔

پولیس کے مطابق اس آپریشن کے دوران بلال گینگ کے دو ارکان کو گرفتار بھی کیا گیا۔

علاوہ ازیں پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ بدھ کو بلا ل ثابت گینگ کے مزید دو ارکان کو ایک مقابلے میں ہلاک کردیا گیا ہے۔