مشرقِ وسطیٰ سےمتعلق صدر اوباما کی تقریر کے اہم نکات

مشرقِ وسطیٰ سےمتعلق صدر اوباما کی تقریر کے اہم نکات

امریکی صدر براک اوباما نے جمعرات کے روز اپنی ایک اہم تقریر میں مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک سے متعلق امریکی حکمتِ عملی کی وضاحت کی

امریکی صدر براک اوباما نے جمعرات کے روز اپنی ایک اہم تقریر میں مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک سے متعلق امریکی حکمتِ عملی کی وضاحت کی۔ خطے کے چند اہم ممالک کے بارے میں امریکی صدر کے خیالات ذیل میں پیش ہیں:

مصر:

صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ کو مصر کی فوری معاشی ضروریات کو پورا کرنے میں اس کی مدد کرنی چاہیے۔ ان کے بقول ایسا کرکے امریکہ مصری عوام کو اس ابتری پر قابو پانے میں مدد دے سکتا ہے جس کا سامنا انہیں اپنی جمہوری جدوجہد کے بعد کرنا پڑ رہا ہے۔

صدر اوباما نے اعلان کیا کہ امریکہ مصر کو دیے گئے ایک ارب ڈالرزکے قرض کی ادائیگی میں "آسانی" فراہم کرنے کےساتھ ساتھ قاہرہ کو عالمی مارکیٹوں تک دوبارہ رسائی فراہم کرنے میں مدد دینے کیلیے ایک ارب ڈالرز کا اضافی قرض بھی فراہم کرے گا۔

تیونس:

صدر اوباما نے اعلان کیا کہ ان کی انتظامیہ کانگریس کے ساتھ مل کر تیونس اور مصر میں سرمایہ کاری کیلیے "مشترکہ فنڈز" کے قیام کی کوشش کرے گی۔

ان کے بقول مذکورہ دونوں عرب ممالک کیلیے یہ فنڈز 1990ء کی دہائی میں سوویت اقتدارسے نجات کے بعد بحالی کی کوششوں کے سلسلے میں مشرقی یورپی ممالک کو فراہم کیے گئے فنڈز کی طرز پر قائم کیے جائینگے۔

شام:

امریکی صدر نے اپنی تقریر کے دوران غیر متوقع طور پر شام کے صدر بشار الاسد کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ "یا تو وہ جمہوریت کی جانب پیش قدمی میں اپنے ملک کی قیادت کریں یا پھر راستے سے ہٹ جائیں"۔

صدر اوباما نے اپنی تقریر میں شامی حکومت سے سیکیورٹی فورسز کو مظاہرین کو نشانہ بنانے سے روکنے، شام میں پرامن مظاہروں کی اجازت دینے، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور غیر منصفانہ گرفتاریوں کا سلسلہ فوری طور پر بند کرنے کے مطالبات بھی کیے۔

امریکی صدر نے شامی حکام سے 'داعا' سمیت احتجاجی تحریک کے دیگر مرکزی شہروں تک انسانی حقوق کے کارکنوں کو رسائی دینے اور ملک میں جمہوری اصلاحات کے موضوع پر ایک سنجیدہ مکالمے میں انہیں شامل کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔انہوں نے خبردار کیا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں صدر بشار الاسد کے اقتدار کو اندرونی سطح پر چیلنج کیا جاتا رہے گا جبکہ عالمی سطح پر وہ تنہائی کا شکار ہوجائینگے۔

ایران:

ایران کے حوالے سے امریکی صدرکا کہنا تھا کہ ایک جانب تو ایران عرب دنیا میں جاری احتجاجی تحریکوں کی حمایت کا دعویدار ہے جبکہ دوسری جانب ایرانی انتظامیہ اپنے ہی شہریوں کے حقوق کچل رہی ہے۔

انہوں نے ایرانی حکومت کے اس طرزِ عمل کو مجرمانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ تہران کی سڑکوں پر پرامن احتجاج کرنے کی پاداش میں کئی معصوم شہریوں کو جیلوں میں ڈالنے اور مردوں اور خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کی ذمہ دار ہے۔

صدر اوباما نے ایرانی عوام سے وعدہ کیا کہ امریکہ ایرانی عوام کو ان کے حقوق دلانے اور ان کی خواہشات کا احترام کرنے والی ایک نمائندہ ایرانی حکومت کے قیام کیلیے آواز اٹھاتا رہے گا۔

لیبیا:

صدر اوباما نے لیبیا کے حکمران معمر قذافی کی اقتدار سے دستبرداری کو لازم قرار دیتے ہوئے لیبیا پر جاری نیٹو کے فضائی حملوں اور قذافی انتظامیہ کے خلاف عائد کردہ عالمی پابندیوں کا دفاع کیا۔

امریکی صدر کا موقف تھا کہ لیبیا میں عالمی برادری کی فوجی مداخلت کے باعث صدر قذافی کے ہزاروں مخالفین کی جانوں کا تحفظ ممکن ہوا۔

اسرائیل اور فلسطین:

صدر اوباما نے اپنی اہم تقریر میں فلسطینیوں کی ایک ایسی آزاد ریاست کے قیام کی حمایت کے عزم کا اعادہ کیا جس کی سرحدوں کا تعین ان کے بقول 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ سے قبل کی صورتِ حال کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

صدر اوباما نے اسرائیلی اور فلسطینی رہنمائوں پر زور دیا کہ وہ اپنے باہمی اختللافات کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کریں تاکہ ان کے بقول ایک "ممکن فلسطین" اور "محفوظ اسرائیل" کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔