امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ آئندہ سال یعنی 2017 میں بھی افغانستان میں تقریباً 8400 امریکی فوجی تعینات رہیں گے۔
اِس سے قبل صدر اوباما کی انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ 2016ء کے اختتام تک افغانستان میں اس وقت تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد کو 9800 سے کم کر کے 5500 کر دیا جائے گا۔
تاہم صدر اوباما نے بدھ کو اعلان کیا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورت حال ’’نازک ہے‘‘ اس لیے امریکہ وہاں آئندہ سال بھی 8400 فوجی تعینات رکھے گا۔
امریکی صدر نے کہا کہ’’طالبان اب تک خطرے کا باعث ہیں۔ چند لحاظ سے اُنھیں سبقت حاصل رہی ہے۔ اُنھوں نے حملے اور خودکش بم دھماکے جاری رکھے ہیں، جن میں کابل میں کیے جانے والے حملے شامل ہیں‘‘۔
بقول اُن کے ’’کیوں طالبان دانستہ طور پر شہری آبادی کو ہدف بناتے ہیں، مزید افغان مرد، خواتین اور بچے ہلاک ہو رہے ہیں؛ جنھیں مہاجرین کے عالمی بحران کے تناظر میں اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے‘‘۔
افغانستان میں امریکی فوجی دو طرح کے مشن پر کام کرتے رہے ہیں۔ اِن میں افغان فوجوں کی مشاورت اور اعانت کرنا شامل ہے، جو طالبان کے خلاف نبردآزما ہیں جب کہ وہ القاعدہ کے شدت پسندوں سے منسلک عناصر سے نمٹنے اور داعش کے جنگجوؤں کو ملک میں قدم جمانے سے روکنے کے لیے بھی افغان فورسز کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔
صدر نے کہا کہ ’’ایسے میں جب (افغانستان میں) بہتر نتائج سامنے آ رہے ہیں ، افغان سکیورٹی افواج ابھی اتنی مضبوط نہیں ہیں جتنا کہ اُنھیں ہونا چاہیئے‘‘۔
اوباما نے کہا کہ اُنھوں نے افغانستان میں زیادہ فوجی تعینات رکھنے کا فیصلہ افغانستان میں نئے امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن کی سفارشات کا جائزہ لینے کے بعد کیا ہے، جنھیں وزیرِ دفاع ایش کارٹر اور دیگر فوجی اور انٹیلی جنس اہل کاروں کی مشاورت حاصل تھی۔
صدر نے کہا کہ اِس ہفتے کے اواخر میں وارسا میں نیٹو کے سربراہ اجلاس کے دوران وہ افغانستان کے لیے مزید اتحادی اعانت پر زور دیں گے۔
امریکی صدر نے کہا کہ ایسے میں جب وہ عہدے کی اپنی میعاد مکمل کرنے والے ہیں افغانستان میں مزید فوجیں باقی رکھنے کے اقدام سے آنے والے امریکی صدر کے لیے فیصلے میں لچک کا عنصر حاصل ہو گا کہ اِس طویل المدتی تنازعے میں پیش رفت کے لیے درکار بہتر فیصلہ کیا ہوسکتا ہے۔
اوباما نے کہا کہ فوجی سطح کا فیصلہ طالبان کے لیے ایک پیغام کی مانند ہے کہ امریکہ اور بین الاقوامی برادری ’’افغانستان کی پائیدار کامیابی کے عزم‘‘ پر قائم ہے۔