پاکستان نے افغان وزیرِ داخلہ کے اُن الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا ہے کہ سابق افغان صدر اور اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل میں اُس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ملوث ہے۔
اتوار کو وزارتِ خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان انٹیلی جنس اور سلامتی کے اداروں کی جانب سےاپنائی گئی سمت پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
وزارتِ خارجہ کا کہنا ہےکہ افغان حکام غیرذمہ دارانہ بیانات دینےکے بجائے اِس امر پرسنجیدگی سے غور کریں کہ اُن افغان شخصیات کو کیونکر منظم انداز میں منظر عام سے ہٹایا اور قتل کیا جا رہا ہے، جو امن اور پاکستان کی حامی ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مقتول سابق افغان صدر طویل عرصے تک پاکستان میں مقیم رہے اور وہ پاکستان کے ایک بہترین دوست تھے، جس کی وجہ سے اُنھیں ملک میں انتہائی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
پروفیسر ربانی کے قتل میں آئی ایس آئی کے مبینہ کردار سے متعلق شواہد کی فراہمی پر وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے کو سابق صدر پر قاتلانہ حملے کے مبینہ حملہ ساز حمید اللہ اخونزادے، جو ایک افغان شہری ہے، کے اقبالی بیان کی نقل فراہم کی گئی ہے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ افغان وزیرِ داخلہ نے پاکستان پر الزامات عائد کرتے ہوئے اِس امر کو اجاگر نہیں کیا کہ مبینہ قاتل اور اُس کے ساتھی حملے سے قبل قندھار اور کابل میں سرِعام نقل و حرکت کرتے رہے اور یہ کہ مبینہ قاتل نے اعلیٰ امن کونسل کے سرائے میں چار روز تک قیام کیا،جِس کا نظام افغانوں کے پاس ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پروفیسر برہان الدین ربانی سے ملاقات سے قبل حملہ آور کی بظاہر تلاشی بھی نہیں لی گئی۔
وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ وہ حقائق ہیں جو افغان خفیہ ادارے کی جانب سے پاکستانی سفارت خانے کو فراہم کی گئی اقبالی بیان کی نقل میں بھی درج ہیں۔
وزارتِ خارجہ کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ سابق افغان صدر کی ہلاکت کے بعد کیے گیے دورہٴ کابل میں پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اب افغان حکام کو اِس واقعے کی تحقیقات میں اپنے ملک کے تعاون کی یقین دہانی کراچکے ہیں اور یہ کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام اور باہمی احترام کو یقینی بنانے کے عزم پر قائم ہے۔