سال 2012ء میں سنیما انڈسٹری میں 2 ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی جبکہ سال 2013ء کو ملک میں سنیما انڈسٹری کی بحالی کے حوالے سے نہایت اہم خیال کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں سنیما انڈسٹری ترقی کی جانب گامزن ہے۔ گو کہ اس کی رفتار ابھی بہت کم ہے لیکن اگر یہ رفتار بھی برقرار رہی، تب بھی ملکی سنیما ایک نئی کروٹ لے لے گا۔
اس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2012ء میں سنیما انڈسٹری میں 2 ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی جبکہ سال 2013ء کو ملک میں سنیما انڈسٹری کی بحالی کے حوالے سے نہایت اہم خیال کیا جارہا ہے۔
فلم ڈسٹری بیوٹر اور 'ایٹریم سنیما' کراچی کے چیف آپریٹنگ آفیسر ندیم مانڈوی والا کا کہنا ہے، ”کراچی میں 2009ء تک ایک بھی جدید سنیما ہال نہیں تھا۔ جو قدیم سنیما ہالز تھے وہ رفتہ رفتہ منہدم ہوتے جارہے تھے۔ سن 2010 میں کراچی کا پہلا جدید ترین سینما ”ایٹریم“ وجود میں آیا تو لوگوں کو بیک وقت خوشگوار حیرت اور خوشی ہوئی“۔
ایسے وقت میں جب سنیما ہالز شاپنگ سینٹرز میں تبدیل ہورہے ہوں، تفریحی انڈسٹری میں تالے پڑنے لگے ہوں، فنکاروں نے پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہوکر اداکاری کا شوق ہی ختم کردیا ہو اور نئی نسل حسرت سے ”سنیما ہالز“ کا ذکرسننے لگی ہو۔۔ ایسے میں اچانک جدید ترین اور تمام سہولتوں سے آراستہ سستی ترین تفریخ کا ذریعہ بننے والا ”سنیما ہال“ وجود میں آجائے تو پھر خوش گوار حیرت اور خوشی لازمی ہوتی ہے۔
”ایٹریم“ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے کراچی کے کچھ سرمایہ کاروں نے اس حوالے سے مزید سنیما ہالز تعمیر کرانے شروع کردیئے ہیں۔ اس وقت چار سنیما ہالز کلفٹن کے جدید ترین شاپنگ سینٹرز میں زیر تعمیر ہیں اور آئندہ چند ہفتوں میں ان کا باقاعدہ افتتاح بھی ہونے والا ہے۔ ان سنیماہالز کی تعمیر پر 15 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔
نئے سنیماہالز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ جدید ترین آلات کی خریداری پر بھی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ اب زیادہ تر سنیما ڈیجیٹل پروجیکٹرز نصب کرارہے ہیں۔
ندیم کے مطابق ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے لئے تو ڈیجیٹل پروجیکٹرز نئی بات نہیں۔ وہاں یہ نہ صرف کامیابی سے استعمال ہورہے ہیں بلکہ بھارت تو انہیں مقامی طور پر بھی بنارہا ہے۔
کراچی کے ساتھ ساتھ لاہور اور اسلام آباد سے بھی سنیماہالز میں ڈیجیٹل پروجیکٹرز کے استعمال کی خبریں ہیں۔ ان پروجیکٹر کی ٹیکنالوجی بہت ایڈوانس ہے جس سے نہ صرف فلم کی کوالٹی صد فی صد بہترین ہوجاتی ہے بلکہ اس کا ساؤنڈ سسٹم بھی شاندار ہے۔ بعض شائقین کہتے ہیں کہ جدید پروجیکٹرز کے ذریعہ فلم دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔
فلم ٹریڈ سے دیرینہ وابستگی رکھنے والے ساوٴنڈ انجینئر محمد انور نے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال میں بتایا کہ ”امریکی ڈیجیٹل پروجیکٹر پاکستان میں پہنچتے پہنچتے ایک کروڑ روپے کا ہوجاتا ہے جبکہ بھارت میں مقامی طور پر تیار ہونے والا پروجیکٹر 40 سے 50 لاکھ روپے میں پڑتا ہے مگر اس میں تھری ڈی فلٹرز نہیں ہوتا“۔
محمد انور کا مزید کہنا ہے ”پاکستانی فلموں کے لئے یہ پروجیکٹر بھی ایک امتحان ہی ہے۔ چونکہ تمام جدید سنیماہالز میں رفتہ رفتہ تھری ڈی فلٹر والے پروجیکٹرز نصب ہورہے ہیں اور پاکستانی فلموں میں ابھی یہ ٹیکنالوجی متعارف بھی نہیں ہوئی لہذا پاکستانی فلمیں آئندہ ان جدید سنیماہالز پر پیش نہ کی جاسکیں گی۔ اس طرح بھارتی فلموں کی ملک میں ریلیز کے بعد ملکی فلموں کے لئے سنیماہالز کی جو کمی ہے وہ قلت میں بدل جائے گی"۔
ایک اطلاع کے مطابق پروڈیوسرڈائریکٹر شمعون عباسی کی فلم ”گدھ“، اداکارہ آمنہ شیخ کی فلم”لمحے“، منصور بلوچ کی فلم ”جوش“، بلال لغاری کی فلم ”وار“، ہمایوں سعید کی”کپتان اور بوم بوم“ اور تنویر جمال کی ”اب پیامبر نہیں آئیں گے“ مکمل ہوچکی ہیں اور سنیما ہالز کی کمی کے باعث ابھی تک ریلیز نہیں ہوسکی ہیں۔
اس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2012ء میں سنیما انڈسٹری میں 2 ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی جبکہ سال 2013ء کو ملک میں سنیما انڈسٹری کی بحالی کے حوالے سے نہایت اہم خیال کیا جارہا ہے۔
فلم ڈسٹری بیوٹر اور 'ایٹریم سنیما' کراچی کے چیف آپریٹنگ آفیسر ندیم مانڈوی والا کا کہنا ہے، ”کراچی میں 2009ء تک ایک بھی جدید سنیما ہال نہیں تھا۔ جو قدیم سنیما ہالز تھے وہ رفتہ رفتہ منہدم ہوتے جارہے تھے۔ سن 2010 میں کراچی کا پہلا جدید ترین سینما ”ایٹریم“ وجود میں آیا تو لوگوں کو بیک وقت خوشگوار حیرت اور خوشی ہوئی“۔
ایسے وقت میں جب سنیما ہالز شاپنگ سینٹرز میں تبدیل ہورہے ہوں، تفریحی انڈسٹری میں تالے پڑنے لگے ہوں، فنکاروں نے پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہوکر اداکاری کا شوق ہی ختم کردیا ہو اور نئی نسل حسرت سے ”سنیما ہالز“ کا ذکرسننے لگی ہو۔۔ ایسے میں اچانک جدید ترین اور تمام سہولتوں سے آراستہ سستی ترین تفریخ کا ذریعہ بننے والا ”سنیما ہال“ وجود میں آجائے تو پھر خوش گوار حیرت اور خوشی لازمی ہوتی ہے۔
”ایٹریم“ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے کراچی کے کچھ سرمایہ کاروں نے اس حوالے سے مزید سنیما ہالز تعمیر کرانے شروع کردیئے ہیں۔ اس وقت چار سنیما ہالز کلفٹن کے جدید ترین شاپنگ سینٹرز میں زیر تعمیر ہیں اور آئندہ چند ہفتوں میں ان کا باقاعدہ افتتاح بھی ہونے والا ہے۔ ان سنیماہالز کی تعمیر پر 15 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔
نئے سنیماہالز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ جدید ترین آلات کی خریداری پر بھی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ اب زیادہ تر سنیما ڈیجیٹل پروجیکٹرز نصب کرارہے ہیں۔
ندیم کے مطابق ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے لئے تو ڈیجیٹل پروجیکٹرز نئی بات نہیں۔ وہاں یہ نہ صرف کامیابی سے استعمال ہورہے ہیں بلکہ بھارت تو انہیں مقامی طور پر بھی بنارہا ہے۔
کراچی کے ساتھ ساتھ لاہور اور اسلام آباد سے بھی سنیماہالز میں ڈیجیٹل پروجیکٹرز کے استعمال کی خبریں ہیں۔ ان پروجیکٹر کی ٹیکنالوجی بہت ایڈوانس ہے جس سے نہ صرف فلم کی کوالٹی صد فی صد بہترین ہوجاتی ہے بلکہ اس کا ساؤنڈ سسٹم بھی شاندار ہے۔ بعض شائقین کہتے ہیں کہ جدید پروجیکٹرز کے ذریعہ فلم دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔
فلم ٹریڈ سے دیرینہ وابستگی رکھنے والے ساوٴنڈ انجینئر محمد انور نے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال میں بتایا کہ ”امریکی ڈیجیٹل پروجیکٹر پاکستان میں پہنچتے پہنچتے ایک کروڑ روپے کا ہوجاتا ہے جبکہ بھارت میں مقامی طور پر تیار ہونے والا پروجیکٹر 40 سے 50 لاکھ روپے میں پڑتا ہے مگر اس میں تھری ڈی فلٹرز نہیں ہوتا“۔
محمد انور کا مزید کہنا ہے ”پاکستانی فلموں کے لئے یہ پروجیکٹر بھی ایک امتحان ہی ہے۔ چونکہ تمام جدید سنیماہالز میں رفتہ رفتہ تھری ڈی فلٹر والے پروجیکٹرز نصب ہورہے ہیں اور پاکستانی فلموں میں ابھی یہ ٹیکنالوجی متعارف بھی نہیں ہوئی لہذا پاکستانی فلمیں آئندہ ان جدید سنیماہالز پر پیش نہ کی جاسکیں گی۔ اس طرح بھارتی فلموں کی ملک میں ریلیز کے بعد ملکی فلموں کے لئے سنیماہالز کی جو کمی ہے وہ قلت میں بدل جائے گی"۔
ایک اطلاع کے مطابق پروڈیوسرڈائریکٹر شمعون عباسی کی فلم ”گدھ“، اداکارہ آمنہ شیخ کی فلم”لمحے“، منصور بلوچ کی فلم ”جوش“، بلال لغاری کی فلم ”وار“، ہمایوں سعید کی”کپتان اور بوم بوم“ اور تنویر جمال کی ”اب پیامبر نہیں آئیں گے“ مکمل ہوچکی ہیں اور سنیما ہالز کی کمی کے باعث ابھی تک ریلیز نہیں ہوسکی ہیں۔