پاکستان میں جمعرات کو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ دیکھی گئی ہے جس کے بعد انٹربینک میں ایک امریکی ڈالر 255روپے سے زائد کا ہوگیا ہے جب کہ اوپن مارکیٹ میں اس کی قیمت 260 روپے کے ارد گرد ہے۔ یہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی بلند ترین سطح ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کےمطابق جمعرات کو ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 9.61 فی صد کمی دیکھی گئی۔ کاروبار کے اختتام پر ایک امریکی ڈالر کی قیمت،24 روپے 54 پیسے اضافے کے بعد 255 روپے 43 پیسے ہوگئی۔بدھ کو انٹربینک میں ایک امریکی ڈالر 230 روپے89 پیسے پر بند ہوا تھا۔
یہ تاریخی گراوٹ فارن ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے امریکی ڈالر پر سے لگائے گئے کیپ کے ہٹانے کے اعلان کے بعد سامنے آئی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایڈجسٹمنٹ متوقع تھی اور اس کا بھی بہت پہلے سے انتظار کیا جارہا تھا کیونکہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزہ اجلاس کو اب کامیاب بنانا چاہتی ہے جو تین ماہ سے تعطل کا شکار ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے اپریل 2022 میں برسرِ اقتدار میں آنے کے نو ماہ کے دوران روپے کی قدر میں 28 فی صد کمی ہو چکی ہے۔ صرف جنوری میں روپے کی قدر میں اب تک تین اعشاریہ دو فی صد کمی دیکھی گئی ہے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے ہی ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ امریکی ڈالر پر لگائے گئے کیپ کو ختم کر رہے ہیں جس کے بعد اوپن مارکیٹ کے ساتھ انٹربینک میں بھی دو روز سے ڈالر کی قیمت میں مسلسل تیزی اور روپے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر پر لگائے گئے کیپ کا مقصد اس کی بڑھتی ہوئی قدر کو کسی حد تک قابو میں رکھنا تھا۔
ان کے بقول اس معاملے میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ تاہم کیپ لگانے کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا اور لوگ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے بجائے بلیک مارکیٹ میں ڈالر کی خرید و فروخت کر رہے تھے جس کی وجہ سے ایک جانب حوالہ ہنڈی کے غیرقانونی عمل کو فروغ ملا تو دوسری جانب ایکسچینج کمپنیوں کے کاروبار میں تیزی سے کمی آئی۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے میں خود حکومت ملوث تھی جس کا مقصد ملک میں قیمتوں میں کسی حد تک استحکام رکھنا تھا۔ لیکن یہ زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتا تھا۔
اسماعیل اقبال سیکیورٹیز میں ریسرچ اینالسٹ کے طور پر کام کرنے والے شاہ میر عالم زیدی کہتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت پر کیپ رکھنے سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں مسلسل کمی دیکھی گئی اور اس میں ماہانہ تقریباً ایک ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔
ان کے بقول برآمد کنندگان نے بھی پاکستان رقم منگوانے کے بجائے اپنا پیسہ بیرونِ ملک رکھنے کو ہی ترجیح دی جس سے برآمدات میں بھی ماہانہ ایک ارب ڈالر کی کمی دیکھی گئی۔
شاہ میر عالم زیدی کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے کئی دیگر مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ حکومت ڈالر کی قدر مصنوعی طریقے سے طے کرنے کے بجائے اسے مارکیٹ کو تعین کرنے دے۔یوں اگر یہ کیپ نہ لگایا جاتا تو قوی امکان تھا کہ آئی ایم ایف سے قرض پروگرام بحال ہوجاتا جو نومبر سے تعطل کا شکار ہے۔اس کے علاوہ ملک کے غیرملکی زرِمبادلہ کے ذخائر جو اس وقت خطرناک حد تک نیچے آئے ہوئے ہیں انہیں بھی کسی حد تک اوپر لایا جاسکتا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب روپے کی قدر میں شدید کمی کے باعث اب ملک میں مہنگائی مزید بڑھنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ چوں کہ پاکستان کی معیشت کی ساخت اس طرح کی ہے کہ اس میں درآمدی اشیاء کی کھپت بہت زیادہ ہے اور مقامی طور پر تیار شدہ اشیاء کم استعمال ہوتی ہیں جس کی وجہ سے روپے کی قدر سے مہنگائی آنا ایک منطقی بات ہے۔
معاشی ماہر عبدالعظیم کے مطابق گزشتہ سہ ماہی میں ملک میں مہنگائی کی شرح میں 25 فی صد اضافہ دیکھا گیا جو روپے کی قدر میں شدید مندی سے مزید کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔
عبدالعظیم کا کہنا تھا کہ روپے اور ڈالر کی قیمت میں یہ ایڈجسٹمنٹ کی توقع کافی دنوں سے کی جارہی تھی جس کے تحت حقیقی قیمت کا تعین ہوسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ستمبر تک تو ایسا ہی تھا لیکن بعد میں کیے جانے والے اقدامات سے ڈالر کی قیمت کو گرنے سے تو بچالیا گیا مگر اس کا اثر بلیک مارکیٹ کے پھلنے پھولنے کی صورت میں نکلا اور اس سے ملک کو معاشی طور پر شدید نقصان پہنچا ہے۔
تاہم ان کے بقول اب جب ڈالر کی قیمت کا مارکیٹ تعین کرنے لگے گی تو امید ہے کہ اس سے بلیک مارکیٹ کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ جس سے برآمدات بڑھنے کے ساتھ ترسیلات زر میں بھی اضافہ ممکن ہے۔ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ نویں جائزہ اجلاس کے کامیاب ہونے کے بھی امکانات بڑھ جائیں گے۔
ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے ڈالر کی قیمت سے کیپ ہٹانے کے بعد پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ انڈیکس میں ایک ہزار سے زائد پوائنٹس کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔