پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات میں اضافہ، معاشی ماہرین کے حکومت کو مشورے

فائل فوٹو

پاکستان کی معیشت سے متعلق ڈیفالٹ کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ایسے میں معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ سخت مالی حالات سے نکلنے کے لیے حکومت کو قرضوں کی ادائیگی کو مؤخر کرانے یا انہیں ری شیڈول کرانے پر دھیان دینا ہوگا۔

زرِمبادلہ کے انتہائی کم ذخائر، حالیہ عالمی معاشی سست روی کے باعث درپیش چیلنجز، تباہ کن سیلاب اور ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام نے بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگی کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔

پاکستان کی معیشت سے متعلق ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق آئندہ تین سال میں پاکستان کے ذمے 73 ارب امریکی ڈالرز کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیاں ہیں اور اس وقت ملک کے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر صرف سات سے آٹھ ارب امریکی ڈالر ہیں۔

گزشتہ سات برس میں بڑے بیرونی قرضے لینے اور سابقہ واجبات کی وجہ سے قرضوں کا مجموعی حجم 65 ارب ڈالر سے 130 ارب ڈالرز تک جاپہنچا ہے۔

آئندہ تین برس میں آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ قرضوں کی تنظیم نو کے باعث ملک میں سخت قسم کی مالیاتی پالیسیاں رہنے کا امکان ہے جس کی وجہ سے شرح سُود بلند رہے گی، روپیہ دباؤ کا شکار نظر آئے گا اور پاکستان کی اقتصادی ترقی کی رفتار بھی تین فی صد تک رہنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

SEE ALSO: سعودی عرب نے اسٹیٹ بینک میں جمع تین ارب ڈالر کی مدت بڑھا دی

ایسے میں تجزیہ کار اور معاشی ماہرین حکومت کو کئی اہم نکات پر مشورہ دیتے نظر آرہے ہیں جس سے اس صورتِ حال سے نکلنے میں مدد مل سکتی ہے۔

قرضوں کی ادائیگی ممکن بنانے کے لیے رواں مالی سال میں پاکستان کو 28 ارب ڈالر درکار ہیں جب کہ مالی سال 2024 میں یہ رقم بڑھ کر 32 ارب ڈالر اور 2025 میں بھی مزید 29 ارب ڈالرز درکار ہوں گے۔

مزید قرضے حاصل کرنا ضروری

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دوست ممالک اور مالیاتی اداروں کے ساتھ قرضوں کو مؤخر کرانے پر جس قدر جلد ہو بات چیت شروع کرنا چاہیے اور خصوصاً چین کے ساتھ پاکستان کو اپنے قریبی سیاسی تعلقات کا بھی فائدہ اٹھانا چاہیے جس کا پاکستان اپنے کل قرضوں کا 30 فی صد مقروض ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں حکومت کو فوری طور پر چین، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک کو قرضوں کو نہ صرف ری شیڈولنگ پر راضی کرنا ہوگا بلکہ ان سے مزید قرضے حاصل کرنا بھی ضروری ہوگیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو پیرس کلب کے رکن ممالک کے ساتھ قرضوں کو بھی ری شیڈول یا رول اوور کرانا ضروری ہے۔اس کے علاوہ کثیر الجہتی مالیاتی اداروں کے پاکستان کے ذمے قرضوں پر بھی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا، اسحاق ڈار

واضح رہے کہ سعودی عرب نے معاشی مدد کے طور پر پاکستان کے مرکزی بینک میں جمع کرائے گئے تین ارب ڈالر کی مدت میں توسیع کردی ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کو ایکسٹرنل سیکٹر کے مسائل اور پائیدار معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے بطور معاونت یہ رقم اسٹیٹ بینک میں رکھوائی تھی۔

سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے خدشات سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات کی بھی ضرورت ہے جو ایک ماہ سے تاخیر کا شکار ہیں۔

ان کے بقول، دوست ممالک اور دیگر مالیاتی اداروں سے ملنے والے فنڈز کو جلد از جلد یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ مارکیٹ کو یہ پیغام جائے کہ پاکستان کو ضروری رقم کا انتظام ہوچکا ہے۔

سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت

سلمان شاہ کے مطابق یہ امر اطمینان بخش ہے کہ پاکستان نے دسمبر میں واجب الادا بین الاقوامی بانڈز کی رقم ادا کردی ہے اور اب آئندہ ادائیگی سال 2024 میں ہے۔ لیکن یہ یقین دہانی بھی کرانی ضروری ہے کہ اس کی ادائیگی میں بھی کوئی تاخیر نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بانڈ خریدنے پر جو اس وقت رسک پریمئیم ہےم اسے کم کرنے کے لیے ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کو کم کرنا ہوگا۔ اس کے لیے حکومت کو عام انتخابات اور اس سے متعلق دیگر امور پر واضح منصوبہ دینا ہو گا تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوسکے۔

ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق پاکستان کو اپنا تجارتی خسارہ اور جاری کھاتوں کے خسارے کو کم رکھنے کے لیے ہر قسم کی غیر ضروری درآمدات پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے جب کہ دوسری جانب برآؐمدات کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔

'توانائی کے شعبے کا خسارہ ملک کو دیوالیہ کر سکتا ہے'

مالیاتی امور کے تجزیہ کار خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ توانائی کے شعبے میں ہر سال بڑھتے ہوئے گردشی قرضے ملک کو ایک دلدل میں ڈال رہے ہیں۔ اس شعبے میں گردشی قرضے 2500 ارب سے تجاوز کرچکے ہیں اور اتنے بڑے نقصانات کے ساتھ پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ کرنے کے لیے یہ شعبہ اکیلا ہی کافی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں حکمتِ عملی کے ساتھ کام نہ کرنے اور چین کے ساتھ بجلی گھروں کی کیپیسٹی پیمنٹ کے مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے توانائی کے شعبے میں نقصانات معیشت کو دیوالیے کی نہج پر لے آیا ہے۔

سابق وزیرِ خزانہ سلمان شاہ کے خیال میں طویل المعیادمدت کے لیے پاکستان کو اپنے توانائی کا نظام درست خطوط پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مہنگی بجلی کی پیداوار کی وجہ سے پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات کی دنیا میں مسابقت کم ہوجاتی ہے جس سے برآمدات میں کمی آتی ہے۔

SEE ALSO: پاکستان کو روس سے کم قیمت پر پیٹرول اور ڈیزل ملنے کا امکان

انہوں نے کہا کہ بجلی کے سارے نظام کو بیرونی ایندھن کے بجائے مقامی طور پر دستیاب ایندھن پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو پن بجلی، کوئلے سے تیار بجلی اور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے پر زیادہ زور دینا ہوگا۔ تاکہ گھریلو کے ساتھ کمرشل صارفین کو بھی سستی بجلی مہیا ہوسکے۔

ڈاکٹر خاقان نجیب کے خیال میں توانائی کے کم خرچ کے ذریعے اسے محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس عمل سے پاکستان کے توانائی کے بل کو کم رکھنے میں مدد مل سکتی ہے اور اس سے بھی جاری کھاتوں کے خساروں کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

حکومتی اخراجات کم کرنے کی ضرورت

ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں 18ویں ترمیم کے بعد کئی شعبوں میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک ہی طرح کے کام کررہی ہیں جس سے اخراجات زیادہ ہو رہے ہیں۔ حالاں کہ بہت سے کام آئینی طور پر صوبائی حکومتوں کے حوالے کیے جاچکے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وفاقی حکومت یہ کام کرنے کے ساتھ اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں۔

ان کے خیال میں بیرونی قرضے ہوں یا اندرونی قرضے، یہ زیادہ تر سرکاری شعبے نے ہی حاصل کررکھے ہیں اور ایسے میں پبلک فنانشل مینجمنٹ سسٹم میں بہتری لاکر محصولات کو بڑھانا ہوگا اور اخراجات کو ہرصورت گھٹانا ہوگا۔ تاکہ پرائیویٹ سیکٹر پر ٹیکسوں کے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔

ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق حکومت کو اپنے وسائل ایسے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے جو مکمل ہونے کے قریب ہیں تاکہ ان کی تکمیل سے ایک جانب عوام کو فائدہ ہوسکے وہیں ایسے منصوبوں کے مکمل ہونے سے ملک میں مزید بیرونی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں گے۔

خرم شہزاد کے خیال میں مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو اپنے اخراجات میں کم از کم 30 سے 40 فی صد کمی کرنے کی ضرورت ہے اور اس رقم کو ترقیاتی اسکیموں میں لگانے کی ضرورت ہے۔

ماہرین معیشت کے خیال میں پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اسے زرعی پیداوار اور مینوفیکچرنگ میں اضافے کے لیے نہ صرف اقدامات بلکہ سنجیدگی کے ساتھ اس شعبے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔