افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی فورسز کی بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن میں گولہ باری سے پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے بعد صورتِ حال تاحال کشیدہ ہےالبتہ سرحد دونوں جانب سے لوگوں کی آمد و رفت کے لیے کھول دی گئی ہے۔
سرحد پر ’باب دوستی‘ سمیت چمن شہر اور سرحدی علاقوں میں پاکستان کی فوج اور فرنٹیئر کور (ایف سی) نے سیکیورٹی مزید سخت کر دی ہے۔
چمن میں گزشتہ روز ہلاک ہونے والے مقامی افراد کی نمازِ جنازہ ادا کر دی گئی ہے جب کہ شہر کے مختلف علاقوں میں ان کی تدفین بھی کر دی گئی ہے۔
چمن کے نواحی علاقے نیٹو مارکیٹ میں کاروبار کرنے والے تاجر عصمت اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کو وہ اور ان کے دو بھائی اپنی دکان میں موجود تھے کہ یہاں ایک گولہ گرا جس سے ان کے دو بھائی شدید زخمی ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کے بعد ایمبولینس کے ذریعے ان کے بھائیوں نعمت اللہ اور عبداللہ کو طبی امداد کے لیے چمن سول اسپتال منتقل کیا گیا مگر دونوں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کا شکار ہوئے ۔
عصمت اللہ کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی بے گناہ مارے گئے ہیں۔
چمن میں ایک سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان طالبان گزشتہ روز چمن میں شہر کے سرحدی علاقوں سے متصل کلی شیخ لعل محمد میں چیک پوسٹ بنا رہے تھے۔
اہلکار نے بتایا کہ اس سے متصل علاقے سوئی کاریز میں بھی افغان طالبان خاردار تاروں کو ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے جس کے بعد جھڑپیں شروع ہوئی اور دونوں جانب سے فائرنگ کا آغاز ہوا۔
اُدھر پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چمن میں افغان بارڈر فورسز کی بلا اشتعال گولہ باری کی مذمت کی ہے۔
وزیرِ اعظم نےسوشل میڈیا پر ایک بیان میں افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی حکومت سے اس بات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا کہ دوبارہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔
شہباز شریف نے کہا کہ چمن پر افغانستان کی فورسز کی بلا اشتعال گولہ باری اور فائرنگ کے نتیجے میں متعدد پاکستانی شہری نشانہ بنے جب کہ لگ بھگ ایک درجن افراد کا زخمی ہونا افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔
قبل ازیں پاکستان کے دفتر خارجہ نے چمن میں افغان فورسز کی بلا اشتعال گولہ باری کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے افسوسناک واقعات دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کے مطابق ہر گز نہیں ہیں۔
دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ واقعے کے حوالے سے افغان حکام کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما ہونے سےروکے جائیں اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ سرحد پر شہریوں کی حفاظت کرنا دونوں فریقین کی ذمہ داری ہے۔ دونوں ممالک کے متعلقہ حکام اس بات کو یقینی بنانے کے لیے رابطے میں ہیں تاکہ صورتِ حال مزید خراب نہ ہو۔
گزشتہ روز اتوار کو پاکستان اور افغانستان میں چمن کی سرحد پر پاکستانی فورسز اور افغان طالبان میں شدید جھڑپ ہوئی اور چمن شہر میں گولہ گرنے سے چھ افراد ہلاک جب کہ 16 زخمی ہوئے تھے۔
پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان کے مطابق افغانستان میں سرحد کی حفاظت پر مامور اہلکاروں نے پاکستان میں چمن کی عام آبادی والے علاقے کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا ہے۔
اتوار کو ہونے والی جھڑپوں کے حوالے سے آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے بلااشتعال ہونے والی فائرنگ اور گولہ باری سے چھ عام شہری ہلاک ہوئے ہیں جب کہ 17 زخمیوں کو طبی امداد دی گئی ہے۔
فوج نے بیان میں جوابی کارروائی کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق افغانستان کے پاکستان کے ساتھ ملحق صوبہ قندھار کے گورنر کے ترجمان حاجی زید نے بتایا ہے کہ ان جھڑپوں میں طالبان کا ایک اہلکار ہلاک ہوا ہے جب کہ 13 افراد زخمی ہوئے جن میں 10 طالبان اور تین عام شہری شامل ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ نومبر میں بھی پاک افغان سرحد پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس میں پاکستان کا ایک سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوا۔
اس واقعے کے بعد پاکستان افغانستان سرحد ایک ہفتے تک بند رہی تاہم بعد میں دونوں ملکوں کے حکام میں مذاکرات کے بعد سرحد کھل گئی تھی۔ تاہم، گزشتہ روز کے واقعے کے بعد سرحد، باب دوستی کے مقام پر صرف آدھے گھنٹے تک بند رہی۔ بعد میں سرحد ہر قسم کی آمدورفت کے لیے کھول دی گئی ہے۔