پاکستان میں جنوری کے اختتام پر مہنگائی کی شرح مزید دو فی صد اضافے کے ساتھ 14 فی صد سے بھی بلند ہو گئی ہے۔ مہنگائی کی موجودہ شرح گزشتہ دس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
ادارۂ شماریات کے مطابق جنوری میں بھی کھانے پینے کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جن میں گندم، آٹا، چینی، گڑ،کھانے کا تیل، پھل اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔
ادارۂ شماریات کے مطابق دیہی علاقوں میں شہروں کی نسبت مہنگائی کی شرح میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں ایل پی جی کی قیمت سات سال کی بلند ترین سطح پر دیکھی جا رہی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ملک میں مہنگائی کی شرح 5.80 سے بڑھ کر 14.6 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
یاد رہے کہ ملک میں 8-2007 کے دوران مہنگائی کی شرح 17 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی جو اب تک ملکی تاریخ میں افراطِ زر کی بلند ترین شرح قرار دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے رواں سال مہنگائی کی شرح 11 سے 13 فی صد جب کہ عالمی مالیاتی ادارے نے 13 فی صد رہنے کا امکان ظاہر کیا تھا۔ تاہم اس وقت یہ شرح ان دونوں اندازوں سے تجاوز کر چکی ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے دو ماہ کے دوران بھی یہ شرح زیادہ رہنے کی امید ہے، جس کے بعد اس میں کمی کی امید کی جا رہی ہے۔
مہنگائی کی وجہ روپے کی قیمت میں کمی ہے
کراچی میں مقیم ایک معاشی تجزیہ کار منیر افضل کا کہنا ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کی گرانی میں اضافے کی بنیادی وجہ روپے کی قیمت کم ہونا تھا۔ اگرچہ کئی ماہ سے اب روپے کی قیمت میں استحکام تو نظر آتا ہے لیکن اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ درحقیقت پاکستانی روپے کی 40 فیصد کے لگ بھگ گراوٹ کے آفٹرشاکس ہی ہیں۔
منیر افضل کا کہنا تھا کہ حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کا عندیہ دیا ہے جس پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔ ان وجوہات پر رواں دو ماہ تک مہنگائی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ لیکن ان کہنا تھا کہ اگر غذائی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی سے مصنوعی قلت پیدا نہ کی گئی تو مہنگائی میں اب مزید کسی بڑے اضافے کا امکان نظر نہیں آتا۔ جب کہ اگلے چند ماہ میں گندم کی فصل مارکیٹ میں آنے سے گندم سمیت کھانے پینے کی دیگر اشیاء کی قیمتیں کم ہونے کی توقع ہے۔
قرضوں کے حجم میں مسلسل اضافہ
حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پچھلے ایک سال میں ملکی قرضوں کا حجم 40 فیصد بڑھ چکا ہے۔ حکومت نے گزشتہ ایک سال کے دوران 43 کھرب روپے کا قرضہ لیا جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم مالی عدم توازن کا باعث بن رہا ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی کی قیمت یعنی سود میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور حکومت کو قرضے واپس کرنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔ لیکن منیر افضل اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔
ان کا کہنا ہے کہ حالیہ مدت میں مالی عدم توازن کافی بہتر ہوا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ درآمدات پر انحصار کم، ٹیکس وصولیوں میں اضافہ اور ترسیلات زر میں بڑھاوا دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن ان کے بقول بدقسمتی سے حکومتی اخراجات اب بھی بہت زیادہ ہیں اور ان میں کوئی خاص کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ان کے خیال میں قرضوں میں اضافے کا تعلق بھی روپے کی قیمت میں کمی سے ہی ہے۔
جنوری 2020 میں ایف بی آر نے اپنے ٹارگٹ سے تقریباً 100 ارب روپے کم ٹیکس جمع کیا۔ جس سے ملک کو اس وقت مجموعی طور پر 380 ارب روپوں سے زائد کے ریونیو کلیکشن کی کمی کا سامنا ہے۔ تاہم یہ وصولیاں گزشتہ سال یعنی 2017-18 کی نسبت 16 فیصد زائد بتائی جاتی ہیں۔
لیکن دوسری جانب ماہرین کے مطابق یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ حکومت اس سال بھی ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا نہیں کر پائے گی۔ منیر افضل کا کہنا ہے کہ بجٹ منظور کرتے وقت ہمیشہ کی طرح اس بار بھی غیر حقیقی ٹارگٹس ہی رکھے گئے تھے۔ ان کے مطابق ٹیکس کلیکشن سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اب مزید اضافہ ممکن نظر نہیں آتا، جب تک کہ حکومت اس نیٹ میں اضافہ نہیں کرتی لیکن نان ٹیکس ریونیو کلیکشن جیسا کہ نجکاری اور دیگر راستے اب بھی موجود ہیں جو ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنے اور آمدنی کے اہداف کے مزید قریب جانے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔
اپوزیشن کی تنقید اور حکومت کی خاموشی
مہنگائی کی موجودہ لہر، ملکی قرضوں کے حجم میں غیر معمولی اضافے اور ٹیکس وصولیوں کے ہدف پورے نہ ہونے پر اپوزیشن جماعتیں حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مہنگائی کے بے قابو جن نے ملکی معیشت کو تبا کر دیا ہے۔
حکومتی اقدمات سے 18 فیصد عوام خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں جب کہ حکومت نے 11 ہزار 610 ارب روپے کے غیر ملکی قرضے حاصل کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ انہوں نے حکومت کو نااہل اور کرپٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی کی جاری لہر نے شہریوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔
حکومت کی جانب سے معاشی اعشاریوں کی نئی رپورٹس پر فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔