اسلام آباد —
پاکستان تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کرنےکا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے خلاف صوبہ پنجاب میں قراردادلائی جاچکی ہے ۔ پی ٹی آئی قیادت کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن سیاسی فریق بن چکا ہے، جو ہمیں قابل قبول نہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف پنجاب کے حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت بھی کوئی کردار ادا نہیں کرسکی اور ان انتخابات کو منصفانہ اور غیرجاندارانہ سمجھنے کے باوجود پی ٹی آئی کی قیادت چیف الیکشن کمشنر پر حملے کررہی ہے۔
ان حملوں کے جواب میں الیکشن کمیشن کی جانب سے چند بیانات سامنے آئے ہیں جن میں کسی دباؤ میں نہ آنے کا کہا گیا ہے۔
اسمبلی میں پاس ہونے والی قرارداد کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
سینئر قانون دان عمران شفیق ایڈوکیٹ نے کہا کہ اسمبلیوں سے پاس ہونے والی قراردادوں کا کوئی قانونی اثر نہیں ہے اور اس کا صرف اخلاقی دباؤ ہوتا ہے۔ ان کے بقول یہ جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہے، قانونی طور پر ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے،
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا تھا ہے کہ" اسمبلیوں سے قرارداد پاس کروانا غلط اور غیرقانونی ہے ، جیسے ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کے خلاف قرارداد پاس نہیں کروائی جاتی ایسے ہی چیف الیکشن کمشنر کے خلاف قرارداد پاس کروانا غلط عمل ہے"۔
انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کے پاس سیکشن 210 کے تحت اختیار ہے وہ تضحیک کرنے والے شخص یا ادارے کے خلاف ایکشن لے سکتے ہیں جس کی سزا تین سال تک ہے۔ یہ قرارداد لانے پر سپیکر پنجاب اسمبلی اور سیکرٹری پنجاب اسمبلی کے خلاف بھی ایکشن ہوسکتا ہے۔
کیا پی ٹی آئی بیانیہ تشکیل دے رہی ہے؟
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی بیانیہ تخلیق کرنے اور عوام میں مشتہر کرنے کے لیے ایسا ہی انداز اختیار کر تی ہے۔پی ٹی آئی جارحانہ حکمت عملی پر یقین رکھتی ہیں اور اس کا ان کو فائدہ بھی ہوا ہے،
پاکستان تحریکانصاف کے کارکن چیف الیکش کمشنر کے خلاف کراچی میں مظاہرہ کر رہے ہیں
سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنس کیا قانونی راستہ ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے بارے میں احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی جو کچھ بھی کرنا اور کہنا چاہتی ہے اس کا انہیں حق حاصل ہے ۔ ریفرنس فائل کرنا ایک درست اقدام ہے کہ آپ آئینی ار قانونی طریقہ سے اپنا معاملہ حل کرنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں جائیں اور وہاں اپنے ثبوت پیش کریں، اگر آپ کے پاس شواہد ہوئے تو کامیاب ہوں گے۔
سینئر وکیل عمران شفیق کہتے ہیں کہ بالکل اگر اداروں کے خلاف آپ بات کریں تواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر آپ کے پاس ثبوت ہیں تو قانونی کارروائی کریں، قانون میں جو راستہ دیا گیا ہے اس پر چلیں، اگر کوئی فیصلہ غلط دیا ہے تو سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ اب تک پی ٹی آئی کی طرف سے پیش کردہ گراؤنڈ میں مجھے کچھ خاص بات نظر نہیں آئی۔ پی ٹی آئی نے الزام عائد کہا کہ چیف الیکشن کمشنر نے اتحادی جماعتوں سے ملاقاتیں کی ہیں، لیکن ملاقاتیں کرنا تو ان کے کام کی ضرورت ہے، سیاسی جماعتوں کے ریگولیٹر کے طور پر الیکشن کمشنر کی سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کرنا ایک معمول کی بات ہے،
SEE ALSO: حکومت کا فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے اور پی ٹی آئی کا چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ
سینٹ الیکشن میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد پی ٹی آئی کے ایک وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی اور ان پر زور دیا کہ بیلٹ پیپر کی شناخت کے لیئے اقدامات کیے جائیں۔ اس طرح کی مثالیں موجود ہیں، لہذا میں نہیں سمجھتا کہ پی ٹی آئی کے پاس اپنی بات ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ ماضی میں اور کسی چیف الیکشن کمشنر نے استعفیٰ نہیں دیا صرف ایک فخر الدین جی ابراہیم نے استعفیٰ دیا لیکن وہ بطور جج، بطور گورنر بھی استعفیٰ دے چکے تھے۔ لیکن موجودہ چیف الیکشن کمشنر مجھے ایسا نہیں لگتاکہ کسی دباؤ میں آئیں گے، جو کام وہ کررہے ہیں وہ ماضی میں نہیں ہوئے، ان پر عدالت کی طرف سے بھی دباؤ تھا لیکن انہوں نے اپنی لائن لی۔ ماضی میں کہا جاتا تھا کہ الیکشن کمشنر کے پاس اختیارات ہیں لیکن وہ استعمال نہیں کرتے، موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو اپنے اختیارات کا بھی علم ہے اور وہ انہیں استعمال بھی کررہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کا موقف
پاکستان تحریک انصاف چیف الیکشن کمشنر کے خلاف اپنی مہم کو تیز کررہی ہے۔ پیر کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پارٹی کے رہنما اسد عمر نے کہا کہ لیکشن کمیشن کے خلاف بڑا ریفرنس دائر کرنے جا رہے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن سیاسی فریق بن چکا ہے، جو ہمیں قابل قبول نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے نوجوانوں سے گزارش ہے کہ الیکشن کمیشن کے لیے کیا انتخابی نشان ہونا چاہیے، وہ تجویز کریں۔ الیکشن کمیشن کس نشان پر پی ڈی ایم کا حصہ بن سکتا ہے؟۔
پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے بھی گذشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس لانے کے لئے بھی مشاورت کر رہے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی حکومتی وفد سے ملاقات ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے الزام لگایا ا کہ ملک میں موجودہ بحران چیف الیکشن کمشنر کی وجہ سے ہے۔" یہ لوگ الیکشن اس لیے نہیں کروا رہے کہ ہم جیت جائیں گے۔ ان کا بچوں والا رویہ ہے"۔