چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بنے ہوئے ہفتہ ہونے والا ہے۔ البتہ وہ اپنی کابینہ نہیں بنا سکے ہیں۔ اُن کے قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ اِس سلسلے میں مشاورت جاری ہے۔ کابینہ کے لیے کئی ارکانِ اسمبلی کے نام زیرِ غور ہیں۔
پرویز الٰہی کے قریبی حلقے دعوٰی کرتے ہیں کہ وزیر اعلی نے اِس سلسلے میں اتوار کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے بھی مشاورت کی ہے، جس میں اُنہوں نے پنجاب کی کابینہ کا حجم کم رکھنے کی ہدایت کی۔
پرویز الٰہی اِس سے قبل پرویز مشرف کے دور میں وزیراعلیٰ پنجاب رہے ہیں، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مصلحت پسندی کی سیاست کرتے ہیں اور اپنے منصوبوں پر بیورو کریسی کی مدد سے خاموشی سے کام کرتے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے عدالتِ عظمٰی کے فیصلے کے مطابق 26 جولائی اور 27 جولائی سنہ 2022 کی درمیانی شب حلف اُٹھایا تھا۔
پرویز الٰہی کو چیئرمین ضلع کونسل سے لے کر وزیرِ اعلیٰ تک کی سیاست کا تجربہ ہے۔ اِسی طرح وفاق کی سطح پر اُنہیں قائدِ حزبِ اختلاف سے لے کر نائب وزیرِ اعظم تک کی سیاست کی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق پرویز الٰہی ایک متحرک سیاست دان ہیں البتہ اُنہیں سیاسی محاذ پر مصلحت پسندی ہی سے کام لینا ہوگا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کی رائے میں پرویز الٰہی، عثمان بزدار نہیں ہیں۔ وہ پہلے بھی پنجاب کے ایک مضبوط وزیرِ اعلیٰ رہے ہیں، جن کی اپنی ایک الگ سیاسی جماعت ہے۔ وہ اقتدار میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی وجہ سے آئے ہیں، جس کے باعث وہ کسی حد تک عمران خان کی پالیسیوں کے پابند ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سلمان غنی کا کہنا تھا کہ پرویز الٰہی پر آئندہ عام انتخابات کی تلوار لٹک رہی ہے، جس کے باعث وہ اپنی جماعت کو مستحکم کرنے کے ساتھ پی ٹی آئی کو بھی سہارا دیں گے۔
اُنہوں نے کہا کہ اِس وقت پنجاب کا وزیراعلیٰ مسلم لیگ (ق) سے ہے البتہ پی ٹی آئی والے یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت اُن کی ہے، جس کے باعث، ان کے خیال میں، دونوں جماعتوں کے درمیان ایک سرد جنگ کا امکان ہے۔
تجزیہ کار اور کالم نویس ایاز امیر کہتے ہیں کہ پنجاب میں پرویز الٰہی کو زیادہ چیلنجز کا سامنا نہیں ہو گا۔ صوبے میں جو بھی مسائل ہیں وہ وفاق کی سطح کے ہیں۔ جہاں حالات ٹھیک نہیں چل رہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایاز امیر ن سمجھتے ہیں ا کہ پنجاب قدرے پرامن ہے، جہاں فی الوقت کوئی معاشی مسئلہ ہے، نہ امن و امان کی خراب صورتِ حال ۔
اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب کے دوسری طرف وزیرِ اعلیٰ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات کے بعد س مسلم لیگ (ن) اخلاقی طور پر مایوسی کا شکار ہے، جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُنہیں سیاسی طور پر مسائل کا سامنا نہیں ہوگا۔
سلمان غنی کی رائے میں ایک بات پرویز الٰہی کے حق میں جاتی ہے کہ وہ پہلے بھی وزیراعلیٰ رہے ہیں۔ اُن کی بیورکریسی پر قدرے گرفت ہو گی جو کہ عثمان بزدار کی نہیں تھی۔ پرویز الٰہی کو انتظامی طور پر مسائل کا سامنا نہیں ہو گا کیوں کہ وہ ماضی میں اچھے طریقے سے بیورو کریسی کے ساتھ اپنے معاملات چلاتے رہے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ پرویز الٰہی کو پنجاب کی بیوروکریسی اور پولیس افسران کا علم ہے۔ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بیوروکریسی پر کنٹرول پی ٹی آئی کے بجائے پرویز الٰہی کا ہوگا۔ اِن کے مقابلے میں عثمان بزدار کو بیوروکریسی کا علم نہیں تھا، جس سے یوں لگتا ہے کہ پرویز الٰہی عمران خان کا کوئی دباؤ مشکل سے ہی قبول کریں گے۔
ایاز امیر اس بات پر سلمان غنی سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پرویز الٰہی ایک تجربہ کار سیاست دان اور وزیرِ اعلیٰ ہیں۔وہ بیوروکریسی پر گرفت مضبوط کریں گے کیوں کہ وہ انتظامی معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے وزیرِ اعلیٰ بنتے ہی محکمۂ پولیس میں بڑے پیمانے پر تبادلے ہوئے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ اعلیٰ سطح کے حلقوں میں یہ موضوع زیرِ بحث ہے کہ کیا پرویز الٰہی عمران خان کے ساتھ مل کر وفاق میں اتحادی جماعتوں کے لیے مسائل پیدا کر سکیں گے؟ پرویز الٰہی کی چوں کہ پنجاب میں نئی نئی حکومت بنی ہے۔ وہ صوبے کے اتنظامی اور گورننس کے معاملات بہتر کریں گے ایسا نہیں لگتا کہ پرویز الٰہی وفاقی حکومت کے ساتھ نیا محاذ کھولیں گے۔ ان کے بقول آئندہ عام انتخابات کی طرف بات بڑھ رہی ہے۔ اس حوالے سے بیک ڈور ڈپلومیسی چل رہی ہے۔
تجزیہ کار اور کالم نویس ایاز امیر کی رائے میں پرویز الٰہی کو پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہئیں۔ اتحادی جماعتوں کے پاس وفاق میں حکومت ہے، جس کے خلاف پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کو نیا محاذ کھولنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ریاست کا جو علاقہ وفاقی حکومت کے پاس رہ گیا ہے وہ صرف اسلام آباد ہے۔
پرویز الٰہی کے بیان پر کہ وہ عمران خان کے کہنے پر دو منٹ میں اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے، اپنی رائے دیتے ہوئے سلمان غنی نے کہا کہ اگر انتخابات کی طرف پیش رفت ہو تو وہ اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں البتہ محض عمران خان کی خواہش پر پرویز الٰہی ایسا نہیں کریں گے۔ اُن کے بقول اگر ایسا ہوتا ہے تو مسلم لیگ (ن) مسلم لیگ (ق) کے پیچھے کھڑی ہو سکتی ہے۔
عوام کے ریلیف کے حوالے سے ایاز امیر نے کہا کہ یہ معاملات صوبوں کے اختیار میں نہیں آتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ عوام کو بجلی، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیوں میں کمی چاہیے۔ اشیا خورو نوش اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں کمی کے بارے میں اُنہیں اقدامات ضرور کرنے چاہئیں۔ اُنہوں نے کہا کہ معلوم نہیں کہ پنجاب کے پاس مالی وسائل کتنے ہیں آیا کہ پرویز الٰہی نئے منصوبے شروع بھی کر پاتے ہیں یا نہیں۔