خلا میں انسان کے تیار کردہ ان گنت راکٹ اور سیٹیلائٹ تیر رہے ہیں۔ جب تک وہ سائنس دانوں کے کنٹرول میں رہتے ہیں تو ان سے حاصل ہونے والی معلومات سے انسان فیض پاتا رہتا ہے لیکن جب وہ بے قابو ہو کر اپنے مدار اور راستے سے بھٹک جاتے ہیں تو ہمارے لیے خطرات پیدا کر دیتے ہیں۔خاص طور پر اگر ان کا کوئی حصہ فضائی مدار میں جل کر خاکستر ہونے کی بجائے زمین پر گر جائے تو اس سے زندگیوں اور املاک کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
ایک ایسا ہی واقعہ اتوار کے روز اس وقت پیش آیا جب چین کے خلا میں بھیجے ہوئے ایک راکٹ کا کچھ حصہ فلپائن کے قریب سمندر میں گر کر تباہ ہو گیا۔
چین کے اس بڑے راکٹ کا نام 'لانگ مارچ۔ بی فائیو' تھا۔ اس طاقت ور راکٹ کے ذریعے چین نے اپنے خلائی اسٹیشن کے کچھ حصے زمین کے مدار میں بھیجے تھے۔
چین کے زمینی خلائی مرکز 'چائنا مینڈ اسپیس ایجنسی' نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے راکٹ کا آخری حصہ اتوار کی شب 12 بج کر 55 منٹ پر زمین کے کرۂ فضائی میں داخل ہوا۔ اس سے قبل چین کے خلائی ادارے کے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ راکٹ کا یہ حصہ کسی کنٹرول کے بغیر زمین پر گر جائے گا۔
خلائی ادارے کے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ راکٹ کے بقیہ بچے کچے ٹکڑے زمین پر گریں گے یا کہ سمندر میں، جب کہ صرف یہ کہا گیا کہ یہ بے قابو ٹکڑے شمال کی جانب 119 ڈگری طول بلد سے 9 اعشاریہ 1 طول بلد کے درمیانی حصے میں گر سکتے ہیں۔ یہ وہ جنوب مشرقی آبی حصہ ہے جو فلپائن کے جزیرے پالاوان کے شہر پروٹو پرنسا کے قریب واقع ہے۔
فلپائن کے حکام کی جانب سے اس بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا کہ آیا راکٹ کی باقیات گرنے سے زمینی حصے پر کوئی نقصان ہوا ہے یا نہیں۔
چینی راکٹ کے ٹکڑے گرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی چین کو اپنے راکٹوں کے بے قابو ٹکڑے زمین پر گرنے کے سلسلے میں تنقید کا سامنا رہا ہے۔
پچھلے سال چین کے خلائی راکٹ کے کچھ حصے بے قابو ہو کر بحر ہند میں گر گئے تھے جس پر امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے چین پر یہ کہتے ہوئے نکتہ چینی کی تھی کہ وہ خلا میں اپنے راکٹوں اور دیگر خلائی اجسام کے ملبے پر کنٹرول سے متعلق معیارات پر پورا اترنے میں ناکام رہا ہے۔
اس سے قبل 2016 میں چین کے پہلے خلائی اسٹیشن تیانگونگ ون بحر الکاہل میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس کے گرنے سے قبل بیجنگ نے تصدیق کی تھی کہ تیانگونگ ون اس کے کنٹرول میں نہیں رہا۔
اسی طرح مئی 2020 میں ایک ایسے ہی واقعے میں چین کا 18 ٹن وزنی راکٹ بے قابو ہو کر گر گیا تھا۔
ایک ایسا ہی واقعہ 2007 میں بھی اس وقت پیش آیا تھا جب چین کے اپنے موسمیاتی سیٹیلائٹس کو تباہ کرنے کے لیے میزائل استعمال کیے جس پر اسے دنیا بھر سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کیوں کہ زمین کے مدار میں گردش کرنے والے سیٹیلائٹس تباہ کرنے سے بڑے پیمانے پر فضائی ملبہ پیدا ہوا تھا جو کسی کے کنٹرول میں نہیں تھا۔ اس سے یہ خدشہ بھی پیدا ہوا تھا کہ یہ بےقابو فضائی ملبہ زمین کے مدار میں گردش کرنے والے دوسرے ملکوں کے سیٹیلائٹس کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
چین کے 'لانگ مارچ۔ بی فائیو' راکٹ کو اب تک کا سب سے طاقت ور راکٹ کہا جا رہا ہے۔ اس راکٹ کے ذریعے 24 جولائی کو وینٹین نامی خلائی تجربہ گاہ چین کے خلائی اسٹیشن پہنچائی گئی تھی۔ یہ تجربہ گاہ پیر کے روز کامیابی سے خلائی اسٹیشن سے منسلک ہو گئی تھی۔ اس خلائی اسٹیشن پر تین چینی خلاباز رہ رہے ہیں۔
چین کے خلائی اسٹیشن تک سامان پہنچانے والے راکٹ کے الگ ہونے والے حصے بحرالکاہل کے جنوبی حصے میں گر گئے تھے۔ تاہم سمندر میں گرنے سے قبل زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہونے پر ہوا کی رگڑ سے گرنے والے ٹکڑے کا زیادہ تر حصہ خاکستر ہو گیا تھا۔