پاکستان بجٹ منظوری سے قبل آئی ایم ایف سے قسط ملنے کے لیے پر امید

فائل فوٹو

پاکستان کی حکومت نے حالیہ دنوں میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض کی نئی قسط حاصل کرنے کے لیے کئی اقدامات اُٹھائے ہیں۔ تاہم ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی سمجھوتہ طے نہیں پا سکا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بجٹ کی منظوری سے قبل آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ضروری ہے کیوں کہ اس کے بعد بجٹ میں ردوبدل کرنا مشکل ہو گا۔

پاکستان کے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے منگل کی شام دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط کے لیے معاملات ایک سے دو روز میں حل ہوجائیں گے۔

باخبر حلقوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فریقین کے درمیان ڈرافٹ معاہدے کو اب بھی حتمی شکل دی جارہی ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایک بار بجٹ منظور ہونے کے بعد اس میں کسی قسم کی تبدیلی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث ہو گی۔

بیشتر تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ اس ماہ کے آخر تک بجٹ منظور کرانے سے قبل آئی ایم ایف کو قائل کرلے جس سے غیر یقینی کی فضا کا بھی کسی حد تک خاتمہ ہو گا اور مارکیٹ میں بھی اچھا پیغام جائے گا۔

اس حوالے سے پاکستان کے مرکزی بینک اور آئی ایم ایف کے درمیان بُدھ کی شام کسی وقت مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے جس سے اسٹاف لیول معاہدے کی راہ ہموار ہوسکے گی۔

پاکستان کو درپیش سنگین معاشی بحران کے حل اور اس کے ساتھ بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے آئندہ سال کے اختتام تک 40 ارب ڈالر کی خطیر رقم درکار ہے جب کہ اس وقت پاکستان کے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک کے مرکزی بینک کے پاس 16 جون کو صرف آٹھ ارب 98 کروڑ ڈالرز کے ذخائر تھے۔ آئی ایم ایف سے جاری پروگرام کے تحت نظر ثانی مکمل ہونے کے پاس پاکستان کو فنڈ سے تقریبا 90 کروڑ ڈالرز ملنے کی توقع ہے۔

آئی ایم ایف کے بعد دیگر مالیاتی اداروں سے بھی مزید قرض ملنے کے ساتھ دوست ممالک بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی جانب سے بھی مزید قرض کا حصول ممکن ہوسکے گا۔

معاشی ماہرین کے خیال میں اسلام آباد کو کسی حد تک اپنے معاشی مسائل پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ قرضوں کی واجب الادا اقساط ادا کرنے میں بھی سہولت ملے گی۔


معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال میں آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام میں دوبارہ جلد از جلد شامل ہونا ناگزیر ہوچکا ہے۔ ادھر ملک میں ڈالر کی طلب مسلسل بڑھتی جارہی ہے جس کے مقابلے میں رسد کم ہونے کی وجہ سے امریکی ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

منگل کو کاروبار کے اختتام پر روپیہ اپنی قدر کھونے کے بعد 211 روپے 48 پیسے کا ہوگیا ۔ جب کہ اوپن مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت 215 روپے سے تجاوز کرچکی ہے۔

معاشی ماہر اور سابق سیکریٹری خزانہ وقار مسعود کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اب معاملات طے ہوجائیں گے کیونکہ ان کے خیال میں حکومت نے فنڈ کی بیشتر تجاویز پر عمل درآمد کرد یا ہے۔ بالخصوص پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی حکومت نے واپس لے لی ہے۔

"بجٹ میں غیرحقیقی اہداف رکھے گئے، حکومت آئی ایم ایف کو قائل کررہی ہے"

وقار مسعود کامزید کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں جلد شمولیت ضروری ہو چکی ہے۔ ملک کو درپیش معاشی صورتِ حال میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اسمبلی میں پیش کردہ بجٹ، آئی ایم ایف کی ہدایات سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ میں خسارے کا تخمینہ آئی ایم ایف سے طے پائے گئے معاملات سے کہیں زیادہ ہے جب کہ ملکی جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح بڑھنے کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

وقار مسعود کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پرسنل انکم ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے لیکن حکومت نے ٹیکس بڑھانے کے بجائے بجٹ دستاویز میں اسے مزید کم کردیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے پیٹرولیم لیوی سے 600 ارب روپے حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن وہ صرف 135 ارب روپے جمع کرپائی۔ ایسے میں موجودہ حکومت کی جانب سے 750 ارب روپے کی پیٹرولیم لیوی کے حصول کا ہدف غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے۔

ان کے خیال میں حکومت اب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر سبسڈی کا خاتمہ کرکے اور دیگر ٹیکس ا ہداف پورے کرنے کے لیے کچھ مزید اقدامات سے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکل بھی گیا تو معیشت پرکوئی خاص اثر نہیں ہو گا، تجزیہ کار

مجبوراً مشکل فیصلے کیے، عوام کو جلد ریلیف ملے گا: وزیر اعظم

دریں اثنا منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت کی بدترین معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہمیں معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تیل کی عالمی منڈی میں قیمتیں آسمانوں سے باتیں کررہی تھیں اس وقت ملک میں قیمتیں کم کرکے آنے والی حکومت کے لیے ایک جال بچھایا گیا جو ان کے مطابق 100 فی صد بدنیتی پر مبنی تھا۔

شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کی معاشی صور تِ حال گھمبیر ہے اور اجناس کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ ایسے میں حکومت کو مجبورا جہاں تیل کی قیمتیں بڑھانی پڑیں وہیں حکومت نے بجٹ میں سات کروڑ لوگوں کو معاشی پیکج دیا۔