پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کشمیر اور فلسطین کے معاملے پر ناکام رہی جب کہ مغربی دنیا او آئی سی کو سنجیدہ نہیں لیتی کیوں کہ اُنہیں پتا ہے کہ ہم تقسیم ہیں۔
منگل کو اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کو حقیقت تسلیم کرنا بڑی کامیابی ہے۔
کشمیر اور فلسطین کے معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ''دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں، لیکن پھر بھی کشمیر اور فلسطین میں ہونے والی ناانصافی پر ہماری آواز کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔"
او آئی سی وزرائے خارجہ کی یہ کانفرنس دو روز تک جاری رہے گی جس کا عنوان 'اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری 'رکھا گیا ہے۔
کانفرنس کے ابتدائی سیشن سے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہ، سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان، چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے بھی خطاب کیا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ نائن الیون کے حملوں کے بعد دنیا بھر میں اسلامو فوبیا میں اضافہ ہواہے۔ ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد الزام فوری اسلام پر لگایا جانے لگااور اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کے عمل سے سب سے زیادہ مسلمان متاثر ہوئے۔
'چند جنونیوں کی کسی حرکت کا ذمہ دار پورا معاشرہ نہیں ہو سکتا'
انہوں نے کہا کہ کوئی معاشرہ چند جنونیوں کی کسی حرکت کی وجہ سے ذمے دار کس طرح ہو سکتا ہے؟ بدقسمتی سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کانتیجہ یہ نکلا کہ اگر کوئی ایک مسلمان شخص غلطی کرتا ہے تو تمام مسلمانوں کے خلاف آواز اٹھنا شروع ہو جاتی ہے۔اب پہلی مرتبہ عالمی سطح پر یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اسلامو فوبیا نفرت انگیز ہے۔
عمران خان نے کہا کہ" کئی سربراہانِ مملکت خود کو ماڈریٹ مسلمان کا تاثر دے رہے ہیں۔ جب آپ خود کو ماڈریٹ مسلمان کہلاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں اسلام میں مسئلہ موجود ہے لیکن اسلام سب کے لیے ایک ہی ہے، جب تک آپ اپنی غلطیوں کا احساس نہیں کرتے آپ بہتر نہیں ہو سکتے۔"
'غیر جانب دار ممالک یوکرین تنازع کے حل کے لیے آگے آئیں'
عمران خان کا کہنا تھا کہ یوکرین میں جنگ بندی کے لیے اسلامی ممالک کی تنظیم کے وزرائے خارجہ ثالثی یا دیگر ذرائع استعمال کر کے جنگ بندی کے مواقع تلاش کریں۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ جنگ جاری رہی تو دنیا کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔لہذٰا اس تنازع میں غیر جانب دار ممالک کو آگے بڑھ کر اس تنازع کے حل کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ او آئی سی وزرائے خارجہ اور چینی وزیرِ خارجہ سے ملاقاتوں میں اس بات پر زور دیں گے کہ کس طرح ہم یوکرین میں جنگ بندی کے لیے اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
یوکرین اور روس کے درمیان مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل چاہتے ہیں: چینی وزیرِ خارجہ
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے اسلامی ممالک کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تصادم سے بچنے کے لیے آگے بڑھنا ہو گا اور چین تہذیبوں کے مابین مذاکرات کا حامی ہے۔
انہوں نے کہا کہا کہ بیجنگ، یوکرین اور روس کے درمیان مذاکرات کے ذریعے پرامن انداز میں مسائل کے حل کا حامی ہے۔
وانگ یی نے کہا کہ دوستانہ تعلقات چین کی روایات کی بنیاد ہے اور بیجنگ اقوامِ متحدہ میں اسلامی دنیا کی حمایت نہیں بھول سکتا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اور کشمیری مسلمانوں کے لیے چین کی حمایت ہمیشہ غیرمتزلزل رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیجنگ اسلامی دنیا کے ساتھ مربوط تعاون کے لیے تیار ہے اور مسلم دنیا میں 600 منصوبوں پر 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
وانگ یی نے کہا کہ ہمیں سلامتی اور استحکام میں اشتراک کے لیے آگے بڑھنا ہے اور چین دو ریاستی حل کے لیے فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین افغانستان میں امن، ترقی اور تعمیر نو کی ہر ممکن مدد اور تعاون کے لیے ساتھ ہے۔
او آئی سی کانفرنس کا ایجنڈا کیا ہے اور کون کون شریک ہے؟
او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں عالمی صورتِ حال اور مسلم امہ کو درپیش چیلنجز، باہمی یکجہتی، علاقائی امن اور ترقی پر غور کیا جا رہا ہے۔
مسلم ملکوں کے درمیان تجارتی اور اقتصادی روابط کو بھی کانفرنس کے ایجنڈے کا اہم نکتہ قرار دیا گیا ہے۔ کانفرنس کے پہلے روز افغانستان میں جنم لینے والے انسانی بحران پر بھی غور و خوض کیا گیا۔
کانفرس کا انعقاد پاکستان کی پارلیمنٹ کی عمارت میں کیا گیا ہے جس میں 22 ملکوں کے وزرائے خارجہ، نو ممالک کے وزیر مملکت خارجہ، ڈپٹی وزیر خارجہ، دو ممالک کے وزیر دفاع جب کہ دیگر ممالک کے مندوبین شریک ہیں۔
امریکہ کی انڈر سیکرٹری برائے انسانی حقوق عزرا زائیہ بھی اجلاس میں شریک ہیں۔
'امیر خان متقی ترکی نہ جاتے تو شاید اسلام آباد آتے'
پاکستان نے کانفرنس میں شرکت کے لیے افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کو شرکت کی دعوت دی تھی۔تاہم افغانستان کی نمائندگی محمد اکبر عظیمی کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ او آئی سی نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تاحال تسلیم نہیں کیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان حکومت کے نمائندے محمد اکبر عظیمی نے کہا کہ امیر متقی ترکی میں ہونے والے ایک اجلاس میں شرکت کی وجہ سے اسلام آباد نہیں پہنچ سکے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر امیر خان متقی ترکی نہ جاتے تو شاید وہ اسلام آباد میں او آئی سی اجلاس میں شرکت کرتے۔
محمد اکبر عظیمی نےاو آئی سی کے تمام رکن ممالک سے اپیل ہے کہ وہ افغانستان کی مدد کریں اور وہاں سرمایہ کاری کو فروغ دیں۔
اپنے خطاب سے قبل او آئی سی اجلاس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے پر چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ وہ متعدد بار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں البتہ پہلی بار او آئی سی میں شریک ہوکر بہت خوشی ہورہی ہے۔
او آئی سی کے کشمیر سے متعلق رابطہ گروپ کا وزارتی اجلاس بھی منعقد ہوگا جس میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔
SEE ALSO: او آئی سی اجلاس میں چین کے وزیرِ خارجہ کی خصوصی شرکت کس کے لیے پیغام ہے؟اجلاس میں وزارتی سطح پر امن اور سلامتی سمیت وسیع تر مسائل سے متعلق سو سے زائد قراردادیں منظوری کے لیے پیش کی جائیں گی جن میں اقتصادی ترقی، ثقافتی، سائنسی تعاون، انسانی، قانونی، انتظامی اور مالی معاملات شامل ہیں۔
اجلاس کے اختتام پر او آئی سی سیکریٹری جنرل اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی مشترکہ پریس کانفرنس اور اعلامیہ جاری کریں گے۔
اجلاس کے لیے آنے والے اسلامی تعاون تنظیم کے رکن اور مبصر ممالک کے وزرائے خارجہ 23 مارچ کی یوم پاکستان پریڈ میں اعزازی مہمان کی حیثیت سے بھی شرکت کریں گے۔