پاکستان ایران کے سرحد پار اہداف پر حملے، عالمی اخبار کیا کہتے ہیں؟

پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی گزرگاہ تفتان کا ایک منظر۔ فائل فوٹو

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایرانی سرحد کے قریب ایک گاؤں پر ایران کی جانب سے ڈرون اور میزائل حملوں کے ردعمل میں جمعرات کو پاکستان نے ایرانی سیستان بلوچستان کے اندر ایک بستی پر ڈرونز اور میزائلوں سے حملہ کر کے حساب چکا دیا ۔

دنیا کے اکثر اخباروں اور میڈیا چینلز نے اس واقعہ کو اپنی خبروں میں نمایاں جگہ دی ہے اور اس پر تبصرے کیے ہیں۔

ایران انٹرنیشنل

ایران انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان پر حملے سے قبل سپاہ پاسداران انقلاب نے عراق اور شام میں کئی اہداف پر میزائل حملے کیے جس پر عرب لیگ نے ایران کی جانب سے عراق کی حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی پر اس کی مذمت کی۔

ایران انٹرنیشنل نے لکھاہے کہ سامنے آنے والی اس نئی صورت حال کے بعد خطے میں اور اس سے باہر ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ علاقے میں مختلف محاذوں پر ایران کے بڑھتے ہوئے حملے ایک مکمل جنگ کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ اور اب اس تازہ حملے کے بعد یہ خطرناک کھیل جوہری طور پر مسلح پاکستان تک پہنچ گیا ہے۔

پولیٹیکو

پولیٹیکو نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بلوچوں کے ایک ایڈوکیسی گروپ "حال وش" (HalVash) نے حملے میں استعمال ہونے والے گولہ بارود کی بچے کچے ٹکڑوں کی تصاویر شائع کیں ہے اور بتایا ہے کہ ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے سراوان قصبے میں کئی گھروں کو نقصان پہنچا۔

Your browser doesn’t support HTML5

تین ملکوں پر حملوں سے مسلمان دنیا کے درمیان یکجہتی کونقصان پہنچا

پولیٹیکو نے لکھا ہے کہ پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقے میں مذہبی اور علیحدگی پسند کئی عسکری گروپ سرگرم ہیں۔ ان سب کا مقصد ایک ہے اور وہ ہے ایران، پاکستان اور افغانستان کے نسلی بلوچ علاقوں کو ملا کر ایک الگ آزاد ریاست کا قیام۔

الجزیرہ

الجزیرہ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان 900 کلومیٹر طویل سرحد ہے جس کی نگرانی کا نظام بہت کمزور ہے ۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران کی سپاہ پاسدارن انقلاب نے پاکستان کے اندر حملہ اس وقت کیا جب محض چند گھنٹے پہلے دونوں ملکوں کی بحریہ نے مشترکہ مشقوں میں حصہ لیا تھا اور ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کی سائڈ لائنز پر دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے ملاقات کی تھی۔

SEE ALSO: پاکستان ایران کشیدگی پر عالمی ردِعمل

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا جوابی حملہ ایران کے مقابلے میں چھوٹا اور کم فاصلے کا تھا لیکن وہ طاقت کے ایک بڑے مظاہرے کا چھوٹا سا حصہ تھا، جس کا مقصد ملک کو ایک مکمل جنگ کی طرف دھکیلے بغیر ایران کی بڑھتی ہوئی فوجی قوت کو ردعمل دینا تھا۔

بی بی سی

نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں ایک امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کا تجزیہ شامل کیا ہے۔ کوگلمین نے پاکستان کی جوابی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دونوں ملکوں کو پیچھے ہٹنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے پاس ٹھوس جواز موجود تھا، خاص طور پر ایران کی وسیع خطے میں جارحانہ کارروائیوں، دھمکیوں اور حریفوں کو نشانہ بنانے کے لیے براہ راست اور پراکسیز کے ذریعے حملوں کے تناظر میں۔ اگر پاکستان پیچھے ہٹ جاتا تو انہیں مزید حملوں کا خطرہ مول لینا پڑتا۔

SEE ALSO: 'پاکستان اور ایران کی کشیدگی بڑھی تو بھارت بھی متاثر ہو گا'

رپورٹ میں پاکستان کے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین کے حوالے سے کہا ہے کہ حکومت پر کچھ کرنے کے لیے شدید عوامی دباؤ تھا۔ پاکستان نے یہ کارروائی صرف اس لیے کی کہ وہ جواب دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب دونوں ملکوں کو یہیں رک جانا چاہیے اور پاکستان اب ایران کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

ٹائم میگزین

جریدے ٹائم میگزین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران میں پاکستان کا حملہ ایک ردعمل تھا اور دونوں فریق کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتے۔

ٹائم کا کہنا ہے کہ حملہ اور جوابی حملہ دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان، جو چین کے اتحادی بھی ہیں، اور جن کے درمیان خراب تعلقات کی ایک تاریخ ہے، انتہائی کشیدگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ واقعات ایک ایسے موقع پر پیش آئے ہیں جب اسرائیل حماس جنگ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں شورش اور افراتفری بڑھ رہی ہے۔

SEE ALSO:  ایرانی،پاکستانی ہم منصب کہتے ہیں وہ کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے، ترک وزیر خارجہ

گارڈین

موقر برطانوی اخبار گارڈین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے پر مذہبی اور عسکریت پسند گروپس کی سرحد کے آر پار آزادانہ نقل و حرکت نہ روکنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ دسمبر 2023 میں جیش العدل نے ایران میں 11 سیکیورٹی اہل کاروں کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کر دیا تھا اور 2023 میں ہی ایران میں چھپے ہوئے بلوچ عسکریت پسندوں نے پاکستانی بلوچستان میں حملہ کر کے 10 فوجیوں کو مار ڈالا تھا۔ تاہم تہران کی جانب سے پاکستانی حدود کے اندر مکمل اور باقاعدہ فضائی حملوں کے فیصلے نے کشیدگی کو اس انتہا تک پہنچا دیا جس کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں ہے۔

SEE ALSO: پاکستان، ایران کشیدگی: 'گیند اب تہران کے کورٹ میں ہے'

گارڈین کا کہنا ہے کہ اسی طرح اسلام آباد کے ایران کے اندر ڈرون اور راکٹ حملوں کی بھی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ہے۔ جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں اور علاقائی عدم استحکام کے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ

واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ ایران اور پاکستان دونوں کو اپنے مشترکہ سرحدی علاقے میں طویل عرصے سے عسکریت پسندی کا سامنا ہے اور دونوں ہی ملکوں کو ایک دوسرے سے شکایات ہیں۔

خطے کی صورت حال کے تناظر میں تہران نے یہ اندازہ لگایا کہ اس کے پاس عسکری گروپ کو ہدف بنانے کا یہ اہم موقع ہے۔ لیکن پاکستان کے جوابی اقدام سے کشیدگی میں کمی کا راستہ کھل گیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ایران کے عراق اور شام پر حملے؛ کیا مشرقی وسطیٰ میں تنازع شدت اختیار کر رہا ہے؟

ٹائمز آف انڈیا

بھارتی اخبارٹائمز آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ان حملوں نے پاکستان اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستان جوہری ہتھیار رکھنے والا ایک ملک ہے۔ دونوں ملکوں کو اندرونی طور پر بھی چیلنجز کا سامنا ہے اور جزوی طور پر یہ امکان موجود ہے کہ اندرونی مسائل ان حملوں کا جواز بنے ہوں۔

این ڈی ٹی وی

بھارت کے نیوز نیٹ ورک این ڈی ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں حملے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بھارتی حکومت کا موقف بیان کیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے پریس بریفنگ میں کہا کہ یہ ایران اور پاکستان کا معاملہ ہے۔ اور جہاں تک بھارت کا تعلق ہے، دہشت گردی کی جانب ہماری زیرو ٹالرنس پالیسی ہے۔ ہم حکومتوں کی جانب سے اپنے دفاع کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو سمجھتے ہیں۔

تنازعے کا پس منظر

پاکستان اور ایران دونوں کو ہی سرحد سے متصل علاقے میں برسوں سے دہشت گردی کا سامنا ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے پر یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ سرحد پار دہشت گردی کر کے پناہ لینے والے گروپس سے صرف نظر کرتے ہیں اور ان کے ٹھکانوں کے متعلق معلومات فراہم کرنے کے باوجود کارروائی نہیں کی جاتی۔

ایران کو شکایت ہے کہ دہشت گرد سنی گروپ جیش العدل ایرانی سرزمین پر کارروائیاں کر کے پاکستان میں پناہ لے لیتا ہے اور متعدد چینلز کے ذریعے اس جانب توجہ دلائے جانے کے باوجود پاکستانی حکام نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

پاکستان کو بھی ایران سے یہی شکایت ہے کہ علیحدگی پسند بلوچ گروپ حملے کرنے کے بعد سرحد پار ایران چلے جاتے ہیں جہاں ان کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ لیکن ایرانی حکام انٹیلی جینس دیے جانے کے باوجود ان کے خلاف کچھ نہیں کرتے۔

SEE ALSO: وہ 'عسکریت پسند' تنظیمیں جو پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کا باعث بنیں

ایران نے پاکستانی بلوچستان میں حملے کے بعد کہا ہے کہ اس نے جیش العدل کو ہدف بنایا ہے ۔ رپورٹس کے مطابق ایرانی سرحد سے 45 کلومیٹر اندر ایک گاؤں پر میزائل اور ڈورن حملے میں دو بچے ہلاک اور پانچ افراد زخمی ہوئے۔

پاکستان نے ایران کے اندر حملے کے بعد کہا کہ حملے میں پاکستان کے اندر دہشت گردی میں ملوث بلوچ گروپ کو ہدف بنایا گیا جس میں 7 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ ایران کا کہنا ہے کہ پاکستانی حملے میں کوئی ایرانی شہری ہلاک نہیں ہوا۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے قاتل ڈورنز اور میزائلوں کا نشانہ بننے والوں میں خواتین اور بچے شامل تھے۔