پاکستان کے سیکیورٹی حکام اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے درمیان پیر کو عارضی جنگ بندی کی مدت ختم ہوگئی ہے۔ تاہم فریقین نے اتفاق کیا ہے کہ وہ اس میں توسیع ہونے تک ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں نہیں کریں گے۔ فریقین نے یہ اتفاق بھی کیا ہے کہ جون کے وسط میں دوبارہ مذاکرات ہوں گے۔
عارضی جنگ بندی کے دوران پاکستان کی جیلوں میں قید درجنوں عسکریت پسندوں کو رہا کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم کی کارروائیوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستان کے سیکیورٹی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اختتامِ ہفتہ پاکستان کے سیکیورٹی حکام اور کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈروں کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے جس کے دوران فریقین نے امن عمل کو جاری رکھنے کے لیے اپنے اپنے مطالبات کے ساتھ جنگ بندی کے سلسلے میں وعدوں کی پاسداری کے عزم کا اظہار کیا۔
پاکستانی سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ عارضی جنگ بندی کی مدت پیر کو مکمل ہوگئی ہے تاہم اس میں توسیع کا امکان موجود ہے۔ ان کے بقول کالعدم تنظیم کی جانب سے باضابطہ طور پر جنگ بندی میں توسیع سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا لیکن اس عرصے کے دوران سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ان کے خلاف کوئی 'بڑا آپریشن' نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ٹی ٹی پی انہیں نشانہ بنائے گی۔
SEE ALSO: کابل میں جنرل فیض کے ٹی ٹی پی سے مذاکرات، جنگ بندی میں 30 مئی تک توسیعانہوں نے کہا کہ اب تک کی صورتِ حال حوصلہ افزا ہے، فریقین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب تک کی صورتِ حال کی پیش رفت سے متعلق اعلیٰ قیادت کو آگاہ کریں گے اور آئندہ آگے بڑھنے سے متعلق مشاورت کریں گے۔
پاکستانی حکام نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے لیے افغانستان میں برسرِاقتدار طالبان حکومت کی میزبانی کی تعریف کی اور کہا ہے کہ طالبان حکومت نے فیصلہ کن مذاکرات کے لیے ٹی ٹی پی کمانڈرز کی موجودگی کو یقینی بنایا ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی پر اپنا گروپ ختم کرنے پر زور
سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ افغانستان کے قائم مقام وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی نے بطور ثالث اہم کردار ادا کیا ہے جو بعض سیشنز میں خود بھی موجود تھے اور انہوں نے ڈیڈلاک کو ختم کرنے کے لیے مؤثر انداز میں مداخلت بھی کی تھی۔
پاکستانی حکام نے اب تک ٹی ٹی پی سے ہونے والے مذاکرات پر کوئی بیان جاری نہیں کیا جب کہ افغان طالبان نے 18 مئی کو باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا کہ انہوں نے کابل میں پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کی حکومت امن عمل کے فروغ پر یقین رکھتی ہے اور انہیں توقع ہے کہ فریقین مذاکرات کی کامیابی کے لیے برداشت اور لچک کا مظاہرہ کریں گے۔
امن مذاکرات سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی حکام نے کالعدم ٹی ٹی پی کے مذاکرات کاروں کو کہا ہے کہ وہ اپنے آبائی ملک میں امن کی خاطر ریاستِ پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کو ترک کریں اور اپنے عسکری گروپ کو ختم کر دیں۔
SEE ALSO: پاکستان نے ٹی ٹی پی کے دو اہم کمانڈر افغان طالبان کے حوالے کر دیےدوسری جانب کالعدم ٹی ٹی پی کے مذاکرات کار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اسلام آباد افغانستان سے متصل قبائلی اضلاع کی پرانی حیثیت بحال کرے جسے پہلے 'فاٹا' کہا جاتا تھا۔
کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ قبائلی اضلاع سے سیکیورٹی فورسز کو واپس بلایا جائے اور وہاں اسلامی نظامِ انصاف لاگو کیا جائے۔یاد رہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی آئینِ پاکستان کو مسترد کرتے ہوئے اسے غیر اسلامی قرار دیتی رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینئر پاکستانی سیکیورٹی حکام نے ایک مرتبہ پھر کالعدم ٹی ٹی پی کے مذکورہ مطالبات کو ناقابلِ تسلیم قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ سکیورٹی ماہرین کے مطابق فاٹا ایک عرصے تک ملکی اور غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کا ٹھکانہ رہا ہے جہاں القاعدہ اور افغان طالبان بھی مقیم رہے ہیں۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے حالیہ برسوں کے دوران وہاں زمینی اور فضائی کارروائیاں کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا ہے جس کے نتیجے میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ہزاروں کارکنان سرحد پار فرار ہونے پر مجبور ہوئے تھے۔
رواں ماہ کے آغاز میں سامنے آنے والی اقومِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے لیے سراج الدین حقانی کا کردار اہم رہا ہے تاہم رپورٹ میں امن مذاکرات کی کامیابی کے امکانات سے متعلق خدشات کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال اگست میں کابل میں افغان طالبان کی واپسی سے افغانستان میں مقیم غیر ملکی شدت پسند گروہوں میں سب سے زیادہ فائدہ ٹی ٹی پی کو ہوا ہے اور اس وقت افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے تین سے چار ہزار شدت پسند موجود ہیں۔