مئی کے مہینے میں گرمی کا آغاز ہو جاتا ہے اور اس بار تو پاکستان اور بھارت کے درمیان گرما گرمی بھی موسم کے ساتھ مل کر دہرا اثر دکھا رہی تھی۔ 11 مئی 1998 کو بھارت نے پوکھران میں 'شکتی' کے نام سے جو دھماکے کیے تھے ان کی وجہ سے پاکستان میں سیاست کا رخ تبدیل ہو چکا تھا۔
اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف پر ملک کے اندر سے ایٹمی دھماکہ جلد سے جلد کرنے کا دباؤ بڑھ رہا تھا اور پاکستان کی اس وقت کی عسکری قیادت جنرل جہانگیر کرامت کی قیادت میں حکومت کو ایٹمی دھماکے کرنے کا اشارہ دے چکی تھی۔
ایسے میں یہ دھماکے کب ہوں گے؟ کیسے ہوں گے؟ یہ ہی سب سے بڑی خبر تھی اور سب کو اسی کا انتظار تھا۔
صحافت میں آئے محض دو برس ہی ہوئے تھے لیکن اخبار میں اس وقت نئے نئے آنے والے رپورٹرز کو اتنا 'رگڑا' دیا جاتا تھا کہ کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح چھوڑ کر بھاگ جائے۔ لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا تھا کہ خبر بنانی آجاتی تھی اور اگلے چند سال صرف اسی بات پر 'رگڑا' ملتا ہے کہ ہاں لڑکا خبر اچھی بنا لیتا ہے۔
ستائیس اور 28 مئی کو جو صورتِ حال نظر آرہی تھی وہ یہ تھی کہ کسی بھی وقت ایٹمی دھماکوں کی اطلاع مل سکتی ہے اور اس کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔
اس زمانے میں موجودہ دور کی طرح موبائل فون یا درجنوں کے حساب سے ٹی وی چینل نہیں تھے۔ صرف سرکاری ٹیلی ویژن 'پی ٹی وی' ہوا کرتا تھا اور سرکاری ہونے کی وجہ سے اس قدر کنٹرولڈ تھا کہ سرکاری ذرائع سے آنے والی خبروں کی بھی چھان بین کی جاتی تھی۔ ایسے میں ہم اخباروں کے صحافی پی ٹی وی کی خبر پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کر لیتے تھے۔
فیصلہ کئی دن پہلے ہو گیا کہ تھا کہ ایٹمی دھماکے ہونے پر ضمیمہ چھاپا جائے گا۔ اخبار کے دفتر میں ان دنوں ایسے مواقع پر ایسا ہی رش اور شور شرابا دیکھنے میں آتا تھا جیسا آج کل ٹی وی دفاتر میں بڑی خبر کے وقت نظر آتا ہے۔ ہر کوئی رپورٹنگ روم سے نیوز روم تک بھاگ رہا تھا۔
ضمیمہ ایک صفحے کا اخبار ہوتا ہے جس پر صرف اس دن کی بڑی خبر ہوتی ہے۔ عام اخبار کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم قیمت کا یہ ضمیمہ جس دن شائع ہوتا تھا اس دن واقعی کوئی بڑی خبر ہوتی تھی اور شہر بھر میں اس طرح کا ضمیمہ منہ مانگی قیمت پر منٹوں میں فروخت ہو جاتا تھا۔
SEE ALSO: کیا ایٹم بم بنانے کا کوئی فائدہ ہوا؟میرے اس وقت کے چیف رپورٹر عامر الیاس رانا نے ڈیوٹی لگائی کہ بھارتی ایٹمی دھماکوں کا بیک گراؤنڈ لکھو کہ کب کب کیا ہوا اور اٹل بہاری واجپائی نے کیا پریس کانفرنس کی تھی۔
گوگل کی سہولت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے فوراً لائبریری کی طرف گیا اور تین مختلف اخباروں کی فائل اٹھائی اور 11 مئی کے بعد کے پرچے کھنگالنے شروع کر دیے۔
اخباری دفتر میں کام کرنے والے جانتے ہوں گے کہ اخبار کے صاف کاغذ کو پھاڑ کر لکھنے کے لیے صفحات بنائے جاتے تھے جنہیں سلپیں کہا جاتا تھا۔ چھ سلپوں پر مشتمل بھارتی دھماکوں کا بیک گراؤنڈ شاید چیف رپورٹر کی سوچ سے ذرہ جلدی ہوگیا تھا جس پر انہوں نے فوراً ضمیمے کے لیے سائیڈ اسٹوریز لکھنے کو کہا۔
میں نے حیرت سے کہا کہ سر ابھی تو دھماکے بھی نہیں ہوئے ابھی کون سی سائیڈ اسٹوری لکھوں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ تمھارا کیا خیال ہے کہ دھماکے کے بعد ہم صرف آپ کی سائیڈ اسٹوری کے لیے اخبار روک کر بیٹھ جائیں گے؟ تاہم، انہوں نے سمجھایا کہ ملک میں جو ماحول ہے اس کے مطابق خوشی اور مسرت کے اظہار کی فرضی خبر لکھیں کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے، جشن منانا شروع کر دیا، مٹھائیاں تقسم ہونا شروع ہوگئیں۔
میں نے ان سائیڈ اسٹوریز میں اپنے ایک سینئر رپورٹر دوست سہیل عبدالناصر صاحب مرحوم کی اسٹوریز سے بھرپور استفادہ کیا جنہوں نے روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کی تیاریوں سے متعلق تفصیلی خبریں دی تھی۔
سہیل عبدالناصر نے ایٹمی توانائی کمیشن میں اپنے ذریعے کی مدد سے کئی دن قبل ایٹمی دھماکے کی متوقع سائٹس، دھماکہ کرنے کے لیے بنائی جانے والی سرنگ اور ایٹمی صلاحیت سمیت کئی اسٹوریز لکھی تھیں۔ میرے خیال میں اس وقت شاید کسی بھی اخبار میں ان سے بہتر خبریں کوئی نہ دے سکا تھا۔
ہم نے بھی اس وقت دل کے ارمان پورے کیے اور سات آٹھ سائیڈ اسٹوریز لکھیں، اردو اخبار کی سائیڈ اسٹوریز صرف سنگل کالم شائع ہوتی ہیں اور ان کو چٹکلوں کے طور پر سمجھا جاتا تھا لیکن موجودہ دور میں اشتہارات کے باعث بہت بڑی بڑی خبریں اب سنگل کالم ہی چھپتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس دوران ہمارے چیف رپورٹر کو وزیرِ اعظم ہاؤس سے بلاوا آیا جس پر وہ روانہ ہو گئے۔ کچھ دیر بعد وہ آئے تو سب سے پہلے باآواز بلند نواز شریف اور بل کلنٹن کے درمیان ہونے والے رابطے کا بتایا اور کہا کہ بڑی بڑی آفریں آج ٹھکرا دی گئی ہیں۔اربوں ڈالرز آج پاکستان نے ان دھماکوں کے لیے چھوڑ دیے ہیں۔
اسی دوران رپورٹنگ میں موجود ٹی وی پر نیوز کاسٹر نے اطلاع دی کہ اب سے کچھ دیر بعد وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف قوم سے خطاب کریں گے۔ اس کے بعد تمام دلچسپی اس خطاب پر مرکوز ہو گئی۔
واضح تھا کہ پاکستان ایٹمی دھماکوں کا اعلان کرے گا۔ دن کے تقریباً تین بجے وزیرِ اعظم نواز شریف نے ایٹمی دھماکوں کا اعلان کیا جس میں انہوں نے پہلے منٹ میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کا ذکر کیا اور اس کے بعد کہا کہ آج بھارت کا حساب چکتا کر دیا گیا ہے اور اب سے کچھ دیر پہلے پاکستان نے پانچ ایٹمی دھماکے کر دیے ہیں۔
بھارت نے 11 مئی کو تین اور دو مزید دھماکے 13 مئی کو کیے تھے لیکن نواز شریف نے ایک ہی دن میں پانچ دھماکے کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد میں جو براہِ راست اس تقریر کو لکھ رہا تھا فوراً لے کر نیوز روم کی طرف بھاگا۔
نیوز روم والوں نے ٹی وی سے خبر سن کر پانچ دھماکوں کی لیڈ اور باقی سرخیاں پہلے ہی لکھ لی تھیں۔ چیف نیوز ایڈیٹر منظور صادق نے مجھے خبر دیکھنے کے بعد کہا کہ ساتھ بیٹھ کر کمپوز کراؤ۔ میں کمپیوٹر روم میں گیا جہاں ٹائپسٹ شہزاد نے فوراً اس خبر کو ٹائپ کرنا شروع کیا اور اگلے دو سے تین منٹ میں دو سلپوں کی خبر ٹائپ کر کے ایک بار دوبارہ چیک کی اور خبر کو بٹر پیپر پر پرنٹ کر دیا۔
خبر کی پیسٹنگ کے بعد چند ہی منٹوں میں پورا اخبار تیار ہو گیا اور وہیں سے ایک نوجوان بھاگتا ہوا اسے کیمرہ سکیشن میں لے گیا جہاں پرنٹنگ کے لیے پلیٹس بنیں اور چند منٹوں کے بعد ان پلیٹس کو مشین میں نصب کر کے پرنٹنگ شروع ہو گئی۔
جیسے جیسے اخبار چھپ رہا تھا اخبار دفتر کے باہر موجود ہاکرز میں تقسیم ہو رہا تھا جو موٹر سائیکلز پر بھاگتے ہوئے اسے شہر کے اہم پوائنٹس پر سیل کرنے جا رہے تھے۔
SEE ALSO: کیا ایٹم بم بنانے کا کوئی فائدہ ہوا؟اخبار بننے کے بعد شہر کا ماحول دیکھنے کے لیے ہم رپورٹرز شہر کی طرف نکلے، اس وقت اسلام آباد شہر میں آبپارہ مارکیٹ ہی شہر کا موڈ دکھانے کا مرکز تھا۔ یہاں ضمیمہ دھڑا دھڑ بک رہا تھا اور بعض نوجوانوں نے یہ خبر پڑھ کر خوشی سے ناچنا شروع کردیا۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے سنائی دینے لگے، بعض جوشیلے نوجوان ڈاکٹر قدیر خان اور نواز شریف کی تصویریں اٹھا لائے۔ یہ ہنگامہ شام تک جاری رہا۔
شام کو اگلے دن کے اخبار کے لیے خبریں دینے کو دفتر پہنچے، کونے میں موجود ہمارے دوست شکیل چشتی مرحوم بالکل خاموشی سے بیٹھے ٹی وی پر جوشیلے نوجوانوں کے نعرے لگاتے اور ناچنے کے شاٹس دیکھ رہے تھے۔ اچانک بولے "یار کسی نے ایٹمی دھماکوں کے نقصانات اور تباہی پر کوئی اسٹوری کی ہے؟"
سب نے ان کی طرف حیرت انگیز نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں تباہی سے ہمارا کیا لینا دینا، چشتی صاحب چند لمحوں تک کسی جانب سے جواب کے انتظار میں رہے اور پھر ٹھنڈی آہ بھر کر گھر روانہ ہو گئے۔