|
کراچی — پاکستان کی فوج کے رفاہی ادارے ’فوجی فوڈز‘ نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی چین کو بھینسوں کا دودھ برآمد کرے گا۔
دودھ برآمد کرنے کے لیے چین کے رائل گروپ سے معاہدہ ہو چکا ہے۔ گروپ نے اس مقصد کے لیے فوجی فوڈز کے پلانٹ میں سرمایہ کاری کر کے پیکنگ مشین کی تنصیب کی ہے جب کہ برآمدات کے لیے حکومت کی اجازت کا عمل حتمی مراحل میں ہے۔
'فوجی فوڈز' کا شمار پاکستان میں ڈیری مصنوعات بنانے والی بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔
'فوجی فوڈز' کا دعویٰ ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان کو بھاری زرِمبادلہ حاصل ہو گا۔ تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستان میں دودھ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
رواں سال کے بجٹ میں حکومت کی جانب سے الٹرا ہائی ٹیمپریچر (یو ایچ ٹی) دودھ جسے عام طور پر پیکجڈ دودھ بھی کہا جاتا ہے، پر 18 فی صد ٹیکس نافذ کیا گیا ہے جس سے ملک میں دودھ کی بڑھتی ہوئی قیمت مزید اوپر چلی گئی ہے۔
امریکی معاشی جریدے ’بلوم برگ‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس ٹیکس کے نفاذ کے بعد کراچی میں دودھ کی قیمتیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے شہروں پیرس، میلبرن اور ایمسٹرڈیم سے بھی بلند ہو چکی ہیں۔
تاہم ایک تحقیق میں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ پاکستان میں 97 فی صد کھپت کھلے دودھ کی ہوتی ہے اور صرف تین فی صد لوگ ہی پیکجڈ دودھ استعمال کرتے ہیں جن کہ دودھ کی قیمت گزشتہ کئی برس میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث تیزی سے بڑھی ہے۔
مقامی مارکیٹ میں دودھ کا بحران کیوں؟
پاکستان کا شمار دنیا کے پانچ بڑے دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے اور ملک میں گزشتہ کئی برس سے دودھ کی پیداوار میں اضافہ بھی نوٹ کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں گزشتہ مالی سال میں 70 ملین میٹرک ٹن دودھ کی پیداوار ہوئی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں تین فی صد زیادہ ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ سے منسلک ڈیری صنعت کے ماہر عبد الستار کا کہنا ہے کہ دودھ پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے پیداواری ممالک میں شامل ہونا کوئی بڑی بات نہیں کیوں کہ پاکستان کی آبادی بھی دنیا کی پانچ زیادہ آبادی والے ممالک میں شامل ہے اور دودھ ہر گھر کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول ایسے میں پاکستان کی مقامی مارکیٹ میں گرمیوں میں دودھ کی کمی ہو جاتی ہے کیوں کہ اس موسم میں جہاں دودھ کی کھپت زیادہ ہوتی ہے، وہیں گرم موسم اور اس سے منسلک دیگر وجوہات کی وجہ سے دودھ کی پیداوار کم ہو جاتی ہے۔
عبدالستار نے ایک اور اہم مسئلہ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ دودھ پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست میں تو پاکستان چند بڑے ممالک میں ضرور شامل ہوتا ہے۔ لیکن دوسری جانب پاکستان کے پاس جس قدر دودھ دینے والے جانور موجود ہیں ان کے دودھ دینے کی مقدار جسے انگریزی میں ییلڈ (Yield) کہا جاتا ہے وہ دنیا کے دیگر ممالک سے کہیں کم ہے۔
SEE ALSO: فوج کے تعاون کے باوجود 'ایس آئی ایف سی' کی کارکردگی پر سوال کیوں اُٹھ رہے ہیں؟انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل دنیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد بھی پاکستان کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ لیکن وہاں جانور اوسط 13 میٹرک ٹن سالانہ دودھ دیتے ہیں جب کہ پاکستان میں یہ اوسط محض دو سے ڈھائی میٹرک ٹن سالانہ کے برابر ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس گائے اور بھینسوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن دودھ کی پیداوار امریکہ سے کم ہے جہاں گائے اور بھینسوں کی تعداد پاکستان سے کم ہے۔
جانوروں کی تعداد زیادہ لیکن دودھ کی پیداوار کم کیوں؟
پاکستان میں دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود دودھ کی مجموعی پیداوار کم ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے تو اس بارے میں پاکستان میں اکنامک سروے میں پیش کیے گئے اعداد و شمار محض اندازہ ہیں کیوں کہ کافی عرصے سے جانوروں کے شمار کا عمل نہیں کیا گیا۔
محقق عبدالستار کہتے ہیں کہ پاکستان میں دودھ کی مجموعی پیداوار اس لیے بھی کم ہے کیوں کہ دنیا بھر میں گائے کے دودھ کو فوقیت دی جاتی ہے اور اس کی پیداوار بڑھانا نسبتاََ آسان ہے جب کہ پاکستان میں گائے کے مقابلے میں بھینس کا دودھ زیادہ پسند کیا جاتا ہے کیوں کہ اس میں فیٹ لیول زیادہ ہوتا ہے۔
ان کے مطابق بھینس کی فیڈ زیادہ مہنگی اور اسے پالنے پر زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر اس کا دودھ بھی مہنگا ملتا ہے۔
ان کے خیال میں ملک میں گائے کے دودھ کو زیادہ پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دودھ کی پیداوار بڑھائی جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ دنیا میں گائے کے دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے ریسرچ کافی زیادہ ہو چکی ہے اور اس کے لیے جینیٹک ایڈوانسمنٹ اور کراس بریڈنگ جیسے طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود اجناس درآمد کرنے پر مجبور کیوں؟پیک دودھ کی قیمت زیادہ، کمپنیوں کو نئی منڈیوں کی تلاش
پیر مہر علی شاہ ایرڈ ایگری کلچر یونیورسٹی راولپنڈی کے لائیو اسٹاک پروڈکشن ڈپارٹمنٹ کے چئیرمین ڈاکٹر تنویر احمد کا کہنا ہے کہ پیداواری لاگت بڑھنے اور پھر پیکٹ والے دودھ پر جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ نے اس کی فروخت اور بھی کم کر دی ہے۔
ان کے مطابق غریب ہی نہیں بلکہ متوسط طبقہ بھی اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اس کے باعث پیکٹ والے دودھ کی کھپت کم ہو چکی ہے،
ان کا کہنا تھا کہ کمپنیاں اپنی سیل بڑھانے کے لیے نئی منڈیاں تلاش کر رہی ہیں اور انہیں امید ہے کہ ملک سے باہر دودھ کی فروخت سے انہیں بہتر قیمت مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر تنویر احمد کا کہنا تھا کہ عام طور پر خوراک سمجھے جانے والی اہم اشیا کی قیمتوں کو شہریوں بالخصوص نچلے طبقے کی پہنچ میں رکھنے کے لیے حکومت قیمتوں پر نظر رکھتی ہے اور ایسے میں دودھ کی بڑھتی قیمتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
چین کو دودھ برآمد کرنے کے منصوبے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بڑی کمپنیاں کسانوں کو کچھ پیسے زیادہ دے کر ان سے دودھ خریدیں گی، تو یقیناََ اس کا نتیجہ منڈی میں دودھ کی قلت کے طور پر سامنے آئے گا۔ پھر اس قلت کو پورا کرنے کے لیے دودھ میں ملاوٹ کے خدشات بڑھ جائیں گے۔ خالص دودھ مزید کم ہوگا اور قلت کے باعث کھلے دودھ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ دودھ ایسی غذا ہے جو اپنے اندر پروٹین، کیلشیم، وٹامن اور دیگر اجزا رکھتی ہے۔ غذائیت میں کمی کو دور کرنے کی ایک بڑا ذریعہ دودھ ہے۔
ڈیری کی صنعت کے ماہرین کے مطابق دودھ کی قیمت میں اضافے کا اطلاق ان گھرانوں پر زیادہ ہوگا جو غربت کے باعث مہنگا دودھ خریدنے کے متحمل نہیں ہوسکتے جب کہ پاکستان میں لاکھوں ایسے گھرانے ہیں جو غذائیت میں کمی کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے 38 فی صد بچے عمر کے مطابق بڑے ہونے میں کمی کا شکار ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ پھیلاؤ کے ساتھ اس معاملے پر پاکستان میں ہنگامی صورتِ حال کی ضرورت ہے اور خاص طور پر سندھ میں غذائیت کی کمی کا مسئلہ بدتر ہے جہاں تقریباََ 50 فی صد بچے اس سے متاثر ہیں اور یہ تعداد مزید بڑھ رہی ہے۔
ایگری کلچر یونیورسٹی راولپنڈی کے لائیو اسٹاک پروڈکشن ڈپارٹمنٹ کے چئیرمین ڈاکٹر تنویر احمد کہتے ہیں کہ ملک میں دودھ کی قیمت کے استحکام کے لیے جانوروں کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جانوروں کی فیڈ پرائس پر چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے۔
ان کے بقول اسی طرح دودھ کی سپلائی چین اور اس کو ہینڈل کرنے میں ضائع ہونے والے دودھ کو جدید طریقے استعمال کرکے بچایا جاسکتا ہے۔ دودھ کی مقدار بڑھانے کے لیے جانوروں کی درآمدات کے بجائے ایمبریو ٹرانسفر ٹیکنالوجی کی جانب توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے بتایا کہ ملک میں چند ایک سائنس دان ہیں جو ڈیری کی صنعت پر کام کر رہے ہیں۔ ذرعی جامعات نے اینیمل پروڈکشن ڈگری پروگرام بھی ختم کر دیا تھا جو اب حال ہی میں دوبارہ بحال ہوا ہے۔ لیکن اس ضمن میں ٹیکنالوجی کی ترقی سے بھرپور فائدہ اٹھائے بغیر پاکستان دودھ کی کھپت کو مقامی طور پر پورا نہیں کر پائے گا اور ایسی صورتِ حال میں دودھ ایکسپورٹ کرنا مزید نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
چین میں پاکستانی بھینس کی مقبولیت
بعض رپورٹس کے مطابق پاکستان نے حال ہی میں دس ہزار بھینسوں کے ایمبریوز چین کو برآمد کیے ہیں تاکہ وہاں بھینسوں کی پیداوار بڑھائی جاسکے۔ اس کی مالیت 20 لاکھ ڈالر بتائی جاتی ہے۔
اس سے قبل جون میں بھی پاکستان سے پانچ ہزار بھینسوں کے ایمبریوز چین منتقل کیے گئے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں بھینسوں کے دودھ کی بڑھتی ہوئی مانگ اور پاکستانی بھینسوں کے دودھ کے بہتر معیار کے باعث چین میں یہ زیادہ مقبول ہو رہی ہیں اور چین اپنی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان کی بھینسوں کی اعلیٰ نسل کو مزید بڑھانے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔
پاکستان کتنا دودھ برآمد کرے گا؟
ابھی یہ واضح نہیں کہ پاکستان چین کو کتنا دودھ ایکسپورٹ کرے گا۔
لیکن اس معاہدے پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ فی الوقت یہ دو کمپنیوں کے درمیان معاہدہ ہے اور عام استعمال کی غذا یعنی دودھ کی مقامی مارکیٹ میں موجود کمی کو نظرانداز کرنا آسان نہیں ہو گا۔ تاہم فوج کا فیصلہ سازی میں عمل دخل زیادہ ہونے کے تاثر کے باعث ماہرین اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ حکومت اس بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔
فوجی فوڈ کمپنی کے اعلامیے کے مطابق وہ اپنا منافع اگلے پانچ برس میں 100 ارب روپے تک لے جانے کی کوششوں میں ہے جو گزشتہ سال مجموعی طور پر 19 ارب 80 کروڑ روپے تھا۔
فوجی فوڈز کمپنی پاکستان کے بڑے صنعتی گروپ ’فوجی گروپ‘ کا حصہ ہے جو فوجی فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے کمرشل آپریشنز کے طور پر کام کرتا ہے۔
یہ ٹرسٹ 1954 میں حکومت پاکستان کے ’چیریٹ ایبل انڈومنٹس ایکٹ 1890‘ کے تحت کام کر رہا ہے اور اس کا مقصد پاکستان کی فوج کے ریٹائرڈ ملازمین اور ان کے بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا بتایا جاتا ہے۔
ابتدا میں اس ٹرسٹ نے ٹیکسٹائل ملز میں پیسہ لگایا اور اب اس ٹرسٹ کے تحت کھاد بنانے والی کمپنیاں، سیمنٹ، فوڈ، پاور، آئل اینڈ گیس، بینکنگ اور دیگر سیکٹرز میں لگ بھگ 20 کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔
فوجی فاونڈیشن کا دعویٰ ہے کہ اس کی 80 فی صد کمائی ہر سال ویلفیئر سرگرمیوں میں خرچ ہوتی ہے اور اس سے اب تک 90 لاکھ لوگ مستفید ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ فوجی فوڈ وزیر اعلیٰ پنجاب کے اسکول کے بچوں کو دودھ کی فراہمی کے پروگرام میں واحد پارٹنر بھی ہے۔
رواں سال مارچ میں بھی ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ مریم نواز نے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ایسی پالیسی ترتیب دینے پر زور دیا تھا جس سے بھینسوں کے دودھ اور گوشت کی چین کو فروخت بڑھائی جا سکے۔
ڈیری ماہر عبدالستار کا کہنا ہے کہ حکومت کو مقامی مارکیٹ میں طلب کے مطابق پہلے ملک کے اندر دودھ کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دودھ کی مصنوعات ایکسپورٹ کرنے کا بہت صلاحیت موجود ہے۔ لیکن اس کے لیے حکومت کو حکمتِ عملی اپنانی ہوگی۔
ماہرین کے خیال میں حکومت کو یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ پاکستان نے مالی سال 2023 میں دودھ سے تیار شدہ مصنوعات کی 10 ارب روپے سے زائد کی درآمد کی تھی جو مالی سال 2022 سے زیادہ تھی۔
دودھ پیدا کرنے والے بڑے ملک کی حیثیت کے باوجود پاکستان اعلیٰ معیار اور خصوصی دودھ کی مصنوعات جو مقامی طور پر مناسب طور پر تیار نہیں کی جاتیں، ان کی طلب کو پورا کرنے کے لیے دودھ کی نمایاں مقدار درآمد کرتا ہے۔