حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) اور حکمران پیپلزپارٹی کے قائدین کی طرف سے حالیہ دنوں میں ایک دوسرے کے خلاف تنقیدی بیانات میں اضافہ ہوا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جاری انتخابی مہم کے دوران حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت اور قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
بدھ کو بھی ایک انتخابی ریلی سے خطاب میں اُنھوں نے پاکستان کو درپیش مسائل کا ذمہ دار نا صرف پیپلز پارٹی کو ٹھہرایا بلکہ اُن کے بقول حالات کی خرابی میں انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی ملوث ہیں لیکن اپنے اس دعوے کی اُنھوں نے وضاحت نہیں کی۔
نواز شریف نے مرکزی حکومت پر بدعنوانی کے الزامات بھی لگائے اوراُن کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت نے صدر زرداری کے سوئس بینکوں میں موجود اثاثوں کی وطن واپسی کے خط نہیں لکھا۔ ” پاکستان کے حالات پہ کسی کو رحم نہیں اور جب اُن حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے کمیشن کا سوال اُٹھایا جاتا ہے تو اُس کمیشن کو کسی نہ کسی طریقے سے ادھر اُدھر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔“
جلسہ عام سے خطا ب میں نواز شریف نے جہاں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے مسائل کا ذکر کیا وہیں اُن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن ) اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں کشمیر کے مسئلے کا حل چاہتی ہے ۔
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے نواز شریف کی اس تنقید کو یکسر مسترد کر دیا ہے ۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے نواز شریف کے بیان پر حکومت کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی حکومت مفاہمت کی پالیسی پر کاربند ہے۔ ”ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں ۔ ہم مفاہمت کی سیاست کو فروغ دے رہیں اور یہ بے نظیر بھٹو کاویژن ہے۔ تو وہ (نواز شریف) خواہ کچھ بھی کہتے رہیں مگر ہم اپنی مفاہمت کی سیاست سے دور نہیں جائیں گے ۔“
حالیہ دنوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی طرف سے ایک دوسرے پر تنقید میں اضافے کا آغازوفاقی وزیر قانون حفیظ شیخ کی بجٹ تقریر کے دوران نواز شریف کی جماعت کی طرف سے ایوان میں شدید احتجاج سے ہوا۔ اس کے علاوہ ایبٹ آبادمیں القاعدہ کے رہنماء اسامہ بن لادن کی پناہ کے خلاف امریکی فورسز کے خفیہ آپریشن کے محرکات جاننے کے لیے کمیشن کی تشکیل کے طریقہ کار اور اس میں شامل اراکین کے ناموں پر بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات میں شدت آئی۔