صدر زرداری، وزیر اعظم گیلانی کا جمہوری نظام کے تسلسل پر زور

صدر زرداری، وزیر اعظم گیلانی کا جمہوری نظام کے تسلسل پر زور

دونوں رہنماؤں نے یہ بیانات ایک ایسے وقت دیے ہیں جب پیپلز پارٹی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، جس کا تازہ ترین مظاہرہ ایک روز قبل صدر زرداری کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران دیکھنے کو ملا جب اپوزیشن جماعتوں کے اراکین احتجاجاً ایوان سے باہر چلے گئے۔ پیپلز پارٹی کے اپنی اہم حلیف جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ تعلقات بھی تناؤ کا شکار ہیں جس کی بظاہر وجوہات صوبہ سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے متنازع بیانات اور حکمران جماعت کی غیر مقبول اقتصادی پالیسیاں ہیں۔

پاکستان میں سیاسی تناؤ کی فضا میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی قیادت نے موجودہ جمہوری نظام کا تسلسل برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔

بدھ کو قرارداد پاکستان کی منظوری کی 71 ویں سالگرہ کے موقع پر پیپلز پارٹی کے سربراہ صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ملک کے بانی رہنماؤں نے ایک جمہوری اور سیاسی نظریاتی ریاست کا تصور کیا تھا جہاں آئین اور قانون کی حکمرانی ہو۔ کسی سیاسی جماعت یا مخصوص حلقے کی جانب اشارہ کیے بغیر اُنھوں نے متنبہ کیا کہ ان اصولوں سے منحرف نہیں ہونا چاہیئے۔

”اس دن آئیں عزم کریں کہ ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے لوگوں کے بنیادی حقوق غصب کرے اور ان کی جمہوری امنگوں کو روند ڈالے۔“

صدر زرداری نے کہا کہ اس بار یوم پاکستان پہلے سے زیادہ یاد گار ہے کیوں کہ اس تاریخی دن کی یہ پہلی سالگرہ ہے جب پارلیمان نے آئین کو حقیقی جمہوری شکل میں بحال کرنے کے لیے اس میں تین عشروں سے زائد آمریت کی نشانیاں متفقہ طور پر مٹا دیں ہیں۔

صدر زرداری، وزیر اعظم گیلانی کا جمہوری نظام کے تسلسل پر زور

یوم پاکستان پر اپنے الگ پیغام میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان ایک جمہوری جدوجہد سے حاصل کیا گیا تھا اور”یہ ہماری انفرادی و اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم جمہوریت اور عوام کی نمائندہ حکومت کی حفاظت کریں“۔

اُن کے مطابق پیپلزپارٹی کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت کے اقدامات نے وفاق پاکستان کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا۔ اُنھوں نے 18 ویں اور 19 ویں آئینی ترامیم کی منظوری، این ایف سی ایوارڈ اور آغاز حقوق بلوچستان کو حکومت کی چند اہم کامیابیاں قرار دیا۔

دونوں رہنماؤں نے یہ بیانات ایک ایسے وقت دیے ہیں جب پیپلز پارٹی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، جس کا تازہ ترین مظاہرہ ایک روز قبل صدر زرداری کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران دیکھنے کو ملا جب اپوزیشن جماعتوں کے اراکین احتجاجاً ایوان سے باہر چلے گئے۔ پیپلز پارٹی کے اپنی اہم حلیف جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ تعلقات بھی تناؤ کا شکار ہیں جس کی بظاہر وجوہات صوبہ سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے متنازع بیانات اور حکمران جماعت کی غیر مقبول اقتصادی پالیسیاں ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی ہنگامہ آرائی کے باعث حکومت مسلسل دباؤ میں ہے اور ملک کو درپیش سنگین مسائل عدم توجہی کا شکار ہیں۔

تاہم وزیر اعظم گیلانی نے بدھ کو اپنے پیغام میں کہا کہ ”ہم نے مفاہمت اور مذاکرات کے کلچر کو فروغ دیا تاکہ تمام فریقین کے ساتھ مل کر قومی مسائل کو حل کر سکیں۔“

اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی و انتہا پسندی سمیت مختلف چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس جذبے کو اجاگر کرنا ہو گا جو 23 مارچ 1940ء کو ابھر کر سامنے آیا تھا۔ وزیر اعظم نے عوام کی اہلیت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وہ اس موقع پر بیداری کا ثبوت دیں گے۔

صدر زرداری نے بھی کہا کہ تشدد، نفرت اور عدم برداشت پاکستانی معاشرے میں سرایت کر چکے ہیں اور ہر شخص کو ان کی کھل کر مذمت کرنی چاہیئے۔ ”میں آج ہر ایک سے براداشت کا جذبہ، باہمی موافقت، ہم آہنگی اور اختلاف رائے کے احترام میں خود کو ڈھالنے کی التماس کرتا ہوں۔“

صدر زرداری، وزیر اعظم گیلانی کا جمہوری نظام کے تسلسل پر زور

مزید برآں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے قرارداد پاکستان کی منظوری کی 71 ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے پاکستانی ہم منصب کو مبارک باد اور خیر سگالی کا پیغام بھیجا ہے۔

وزیر اعظم سنگھ نے دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان پُرامن اور تعاون پرمبنی تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم (بھارت) تمام تصفیہ طلب تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔ مجھے امید ہے کہ مذاکرات کا موجودہ عمل خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی کا سبب بنے گا۔“

روایتی حریف ملکوں کے عہدے دار تعطل کا شکار مذاکرات رواں ماہ دوبارہ شروع کرنے جا رہے ہیں۔

بھارت نے نومبر 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد جامع امن مذاکرات کا عمل یک طرفہ طور پر منقطع کر دیا تھا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ یہ حملے لشکر طیبہ سے منسلک شدت پسندوں نے کیے جنھیں مبینہ طور پر پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی مدد حاصل تھی۔ پاکستان اپنے فوجی ادارے پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتا آیا ہے۔

صدر زرداری، وزیر اعظم گیلانی کا جمہوری نظام کے تسلسل پر زور

امریکہ کے صدر براک اوباما نے بھی یوم پاکستان پر صدر زرداری کے نام اپنے پیغام میں پاکستانی عوام کو اس موقع پر مبارک باد پیش کی ہے۔

مسٹر اوباما نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان ایک طویل عرصے سے صحت، تعلیم، کاروبار سمیت انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اُنھوں نے بانی پاکستان کا وہ قول بھی دہرایا جس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ایمان، تنظیم اور فریضے کی ادائیگی سے بے غرض وابستگی کے ذریعے ہر ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ اُن کا ملک دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا خواہاں ہے تا کہ خطے سمیت دنیا بھر میں امن، برداشت، ترقی، سلامتی اور استحکام پروان چڑھ سکے۔

پاکستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات جنوری کے اواخر میں اس وقت انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے جب لاہور کی پولیس نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے سے نجی حیثیت میں منسلک اہلکار ریمنڈ ڈیوس کو دو پاکستانیوں کو قتل کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا۔ تاہم 16 مارچ کو مقتولین کے ورثا اور ریمنڈ ڈیوس کے مابین ’راضی نامے‘ کے بعد ایک مقامی عدالت نے امریکی باشندے کے خلاف دوہرے قتل کے الزامات ختم کرتے ہوئے اس کی رہائی کا حکم دیا۔