پاکستان کی نئی اتحادی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے اشارے دے رہی ہے۔ امریکی قیادت کے ساتھ ابتدائی رابطوں کے بعد پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری آئندہ ہفتے امریکہ کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے جمعرات کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو 17 مئی کو امریکہ روانہ ہوں گے جہاں وہ اعلیٰ حکام سے اہم ملاقاتیں کریں گے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے گزشتہ ہفتے بلاول بھٹو کو وزارتِ خارجہ کا منصب سنبھالنے پر مبارک باد اور نیویارک میں ہونے والی غذائی تحفظ کی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔دفترِ خارجہ کے مطابق بلاول بھٹو اس کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ ان کے دورے کی مزید تفصیلات ابھی طے کی جا رہی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی خفیہ ایجنسی 'انٹر سروسز انٹیلی جنس' (آئی ایس آئی) کے سربراہ جنرل ندیم انجم پہلے ہی سے واشنگٹن ڈی سی کے دورے پر ہیں۔
پاکستان کی فوج کے ترجمان جنرل بابر افتخار نے ڈی جی آئی ایس آئی کے دورۂ امریکہ کی تصدیق کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ میں جنرل ندیم انجم کی سرگرمیوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ البتہ انٹیلی جنس لیول پر یہ دورہ معمول کے مطابق ہیں۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے ان دوروں کو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی قیادت کی دعوت پر پاکستان کے سیاسی و عسکری قائدین کے دورے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
SEE ALSO: بلنکن کی بلاول کو وزیرخارجہ بننے پر مبارکباد، دو طرفہ تعاون پر تبادلہ خیالپیش رفت اور رکاوٹیں
اس معاملے پر سابق سیکریٹری خارجہ ریاض کھوکھر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کا اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو سے ٹیلی فونک رابطہ اور انہیں نیویارک آنے کی دعوت دینا خوش آئند ہے۔ لیکن یہ پاکستانی وزیرِ خارجہ کا باضابطہ سرکاری دورہ نہیں ہے بلکہ ایک کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ اور انٹیلی جنس چیف کے دورے امریکہ سے دوطرفہ تعلقات میں بہتری کی ایک اچھی کوشش ہے۔ لیکن بہتر ہوتا کہ امریکی وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو کو غذائی تحفظ کی کانفرنس میں شرکت کے بعد واشنگٹن ڈی سی کی دعوت بھی دیتے جہاں ان کی دیگر امریکی حکام سے بھی ملاقاتیں ہوتیں۔
ریاض کھوکھر کا کہناہے کہ بلاول بھٹو پاکستان کے نوجوان رہنما ہیں۔ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بے نظیر بھٹو خارجہ پالیسی اور امریکہ سے تعلقات سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔ اس پسِ منظر کو دیکھتے ہوئے یقیناً بلاول کو امریکہ میں عزت دی جائے گی۔
سابق سفارت کار اور 'سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹرٹیجک اسٹڈیز' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سرور نقوی اس دورے کو اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کی نئی دہلی کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنرشپ اور چین سے مخاصمت امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات اور دو طرفہ تعاون بڑھانے میں آڑے آئے گی۔
ان کے بقول امریکہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جس سے اس کی بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنرشپ یا چین سے مخاصمت اثر انداز ہو۔ ان رکاوٹوں کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے فروغ کے لیے محدود مواقع ہوں گے اور زیادہ گرم جوشی بھی نظر نہیں آئے گی۔
SEE ALSO: جب نوجوان بھٹو نے پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی باگ ڈور سنبھالیعمران خان کے الزامات اثر انداز نہیں ہوں گے
ایک طرف ان دوروں کو پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری کے لیے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے تو وہیں دوسری جانب سابق وزیرِ اعظم عمران خان اپنے بیانات میں مسلسل امریکہ پر تنقید جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ اور رہنما تقریباً ہر تقریر میں اپنی حکومت کے خاتمے کی وجہ امریکی سازش اور مداخلت کو قرار دیتے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے عمران خان کے ان الزامات کی بارہا تردید کی جا چکی ہے۔
کیا عمران خان کے بیانات پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر اثر انداز ہوں گے؟ اس بارے میں سرور نقوی کہتے ہیں کہ ان الزامات کے کوئی ثبوت موجود نہیں۔ لہٰذا عمران خان کے یہ بیانات تعلقات کی بہتری یا خرابی میں زیادہ اثرات مرتب نہیں کریں گے۔
دوسری جانب ریاض کھوکھر کے مطابق پاکستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ماضی میں امریکہ کا اتحادی بننے اور پاکستان کی قربانیوں پر اسے عزت نہیں دی گئی جب کہ اس کے مقابلے میں واشنگٹن نئی دہلی کے سامنے بچھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بڑھاتا رہتا ہے لیکن اقلیتوں اور کشمیر میں بھارت کے انسانی مظالم پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے جس سے نئی دہلی کو ایسے اقدامات کرنے کی شہ ملتی ہے۔