اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی چین کے خطے سنکیانگ میں مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جاری رپورٹ پر پاکستان نے ردِعمل میں اسے ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر نے گزشتہ ہفتے جاری رپورٹ میں چین کے مغربی خطے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں پر تشدد کے الزامات کو درست قرار دیا تھا اور بیجنگ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا تھا جب کہ اسے انسانیت کے خلاف جرائم سے تعبیر کیا تھا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سنکیانگ میں سماجی و اقتصادی ترقی، ہم آہنگی اور امن و استحکام کے لیے چین کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
دفترِ خارجہ نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے کثیر الجہتی عزم کے ساتھ پاکستان اقوام متحدہ کے منشور میں درج اصولوں پر یقین رکھتا ہے، جس میں سیاسی آزادی، خود مختاری اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا احترام شامل ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ چین نے گزشتہ 35 برس میں 70 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو غربت سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس طرح ان کے حالاتِ زندگی میں بہتری آئی ہے اور بنیادی انسانی حقوق کا حصول ممکن ہوا ہے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق پاکستان اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے نظام کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی جنرل سیکریٹریٹ میں چین کی تعمیری مصروفیات کو سراہتا ہے جو کہ انسانی حقوق کے سابق ہائی کمشنر اور او آئی سی کے وفد کے چین کے دوروں سے ظاہر ہوتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق تمام انسانی حقوق کو عالمی سطح پر آگے بڑھانے کے لیے اپنے مستقل عزم کا اعادہ کرتا ہے۔
چین نے اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ کی مذمت کی ہے اور اسے مغربی طاقتوں کی طرف سے ترتیب دیا گیا ایک ’مذاق‘ قرار دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
چین میں پاکستان کی سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے والی نغمانہ ہاشمی کہتی ہیں کہ پاکستان ہمیشہ سے کہتا رہا ہے کہ کسی ملک کے اندر انسانی حقوق کے معاملے کو اقوامِ متحدہ کے منشور اور اختیارات کے اندر رہتے ہوئے دیکھا جانا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ 2001 کے حملوں کے بعد امریکہ اور یورپ نے بہت سے سخت قوانین بنائے جو بظاہر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھے لیکن داخلی استحکام اور امن و امان کے لیے انہیں یہ قوانین بنانے پڑے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ اگر چین کو اپنے ملک میں انتہا پسند عناصر کی جانب سے امن و امان کا خطرہ ہے، تو اسے بھی حق حاصل ہے کہ وہ اس کے خاتمے کے لیے مناسب اقدامات کرے۔
نغمانہ ہاشمی نے کہا کہ عالمی اداروں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سیاسی نقطۂ نظر سے انسانی حقوق کے معاملات کو دیکھیں بلکہ ان کا غیر جانب دار ہونا لازم ہے۔
چین پر کافی عرصے سے خطے میں ایغور برادری سمیت دیگر 10 لاکھ افراد کو حراست میں رکھنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے جب کہ بیجنگ سختی سے ان الزامات کی تردید کرتا آیا ہے اور وضاحت پیش کی ہے کہ انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے پیشہ ورانہ مراکز چلائے جا رہے ہیں۔
عالمی اور خطے کے امور پر نظر رکھنے والی تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان کا چین کی حمایت میں بیان پر حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ، ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی اداروں میں امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے، تو واحد ملک چین ہے جو پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتی ہیں کہ چین نے چوںکہ ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے، اس لیے جب بیجنگ کو کنارے لگانے کی کوشش ہوگی تو یقینی طور پر اسلام آباد ساتھ کھڑا ہوگا۔
ان کے بقول پاکستان بغیر ابہام کے واضح کرنا چاہتا ہے کہ چین اس کا اسٹریٹجک شراکت دار ہے اور خطے کے حالات کے تناظر میں پاکستان کسی صورت چین کے خلاف بیان نہیں دے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان یہ بھی کہتا ہے کہ امریکہ بھی اس کے لیے بیجنگ کی طرح اہمیت رکھتا ہے اور یہی پالیسی بھارت بھی اپنائے ہوئے ہے کہ وہ امریکہ کا اسٹریٹجک شراکت دار ہے، لیکن روس کے ساتھ تعلقات کو بھی واشنگٹن ڈی سی کی منشا کے خلاف قائم رکھے ہوئے ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو عالمی ادارے معتبر تھے، وہ معتبر نہیں رہے اور سیاسی بنیاد پر استعمال ہو رہے ہیں۔ عالمی اداروں کی رپورٹس کو مخصوص زاویے سے مرتب کیا جاتا ہے جو کہ حریف ممالک کے خلاف استعمال کی جاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اسرائیل اور بھارت اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں البتہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی اس رپورٹ میں چین کے سنکیانگ میں مقیم ایغور مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کے خلاف بد سلوکی کے دعوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ کو تیار ہونے میں ایک سال لگا اور رپورٹ جاری ہونے کی چین نے سخت مخالفت کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایغور اقلت اور دیگر نسلی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور امتیازی حراست بین الاقوامی جرائم، خاص طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کو جنم دے سکتے ہیں۔
دوسری جانب چین کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں اصلاحی مراکز انتہا پسندی کی روک تھام اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ضروری ہے اور یہ کیمپ فنی تعلیم کا مؤثر ذریعہ ہیں۔