پاکستان کے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہیں لیکن دیوالیہ ہونے کا خطرہ نہیں: وزیرِ خزانہ

پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہیں لیکن دیوالیہ ہونے کا خطرہ بالکل نہیں ہے۔

کراچی میں بدھ کو سرمایہ کارواں سےورچوئل خطاب میں اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی اسمگلنگ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ فارن اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری اور فارن ایکسچینج کا باہر جانا تشویش ناک عمل ہے۔ ڈالر اور کھاد کی اسمگلنگ کے لیے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ منصوبہ بنا لیا ہے۔

پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں حکومت ڈالر کی کمی کی شکار نظر آ رہی ہے اور حکومت کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی آ رہی ہے۔ اس وقت حکومت کے پاس چھ ارب ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں جس کو موجودہ صورتِ حال میں ناکافی قرار دیا جا رہا ہے۔

فاریکس ایکسچینج سے منسلک افراد اور مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کی ایک بڑی وجہ افغانستان کی صورتِ حال ہے، جہاں پاکستان کے راستے اربوں ڈالر جا رہے ہیں اور پاکستان کی معیشت پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔

اس صورتِ حال میں جب پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر دباؤ کا شکار ہیں، حکومت نے ضروری اشیا کی درآمد کے لیے زرِ مبادلہ کی پیشگی اجازت کی شرط دو جنوری 2023 سے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس اعلان کی مدد سے پاکستان کی ضرورت کی چیزیں جن کی شدید کمی کاعام افراد کو سامنا تھا، وہ ملک میں لائی جاسکیں گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا پاکستان کے معاشی مسائل کا کوئی حل ہے؟

وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کےمطابق سیاسی گیم اسکورنگ کرکے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان کے بقول وہ تین ماہ سے وزیرِ خزانہ کے منصب پر فائز ہیں اور ہر وقت ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں سن رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کوخوف زدہ کیا ہوا ہے، کوئی سونا تو کوئی ڈالر خرید رہا ہے۔ لوگوں کو اس ڈر سے نکالنا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی معاشی ترقی دنیا دیکھے گی۔ پاکستان کے لیے31ارب ڈالرز کا بندوبست کرنا ہے۔موجودہ صورتِ حال میں توانائی بحران کی وجہ سے برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے درآمدات سے متعلق نیا سرکلر جاری کر دیا ہے، جس میں درآمدات پر عائد پابندیوں کو ہٹا دیا گیا ہے اور درآمد کنندگان کو ریلیف دے دیا ہے جب کہ توانائی، فارما اور اسپیئر پارٹس کی درآمدار پر عائد پابندیاں بھی ختم کر دی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انٹر بینک میں ڈالر کی قدر اس وقت بلند ہے لیکن روپے کی بے قدری بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور مستحکم رکھنا حکومت کی بہتر پالیسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کو 3500 ارب روپے کی چھ سال میں ضرورت ہے۔ پانچ ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کیا ہے جب کہ پاکستان کی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

خیال رہے کہ اسٹیٹ بینک کے ایڈیشنل ڈائریکٹر اطہر غفور کی جانب سے تمام مجاز ڈیلرز کے نام سرکلر جاری کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے 20 مئی 2022 اور پانچ جولائی کو دو الگ الگ سرکلر جاری کیے تھے ۔ ان سرکلرز کے تحت کسٹمز ٹیرف کے چیپٹر 84،85 میں آنے والی تمام مصنوعات اور چیپٹر 87 کی کچھ مصنوعات کی درآمدت کے لیے زرِ مبادلہ کی فراہمی اسٹیٹ بینک کے فارن ایکسچینج ڈپارٹمنٹ کی اجازت سے مشروط کی گئی تھی ۔

اسٹیٹ بینک کی اس شرط کے بعد درآمد کنندگان کے لیے بیرونِ ملک سے مال منگوانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق ملک میں خام مال نہ آنے سے صنعتیں بند ہو نا شروع ہو گئی ہیں۔ اس قلت سے مارکیٹ سے دوائیں غائب ہو رہی ہیں جب کہ ضروری میڈیکل آلات نہ آنے سے طب کے شعبے میں بحران ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

قرضے ری شیڈول کرالیے جائیں تو ملک کا معاشی استحکام لوٹ آئے گا، تجزیہ

صنعتوں کے لیے خام مال اور ضروری پرزے نہ آنے سے برآمدات بھی متاثر ہو رہی تھیں۔ کنسائمنٹ کی کلیئرنس میں مسلسل تاخیر سے ہزاروں کنٹینرز کراچی پورٹ پر موجود تھے اور ان پر جرمانے عائد کیے جا رہے تھے، جس سے درآمدی مال کی لاگت بھی بڑھ گئی تھی۔

اس پر کاروباری طبقے کے مسلسل دباؤ پر حکومت نے ایک بڑا فیصلہ کرتے ہوئے یہ پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 27 دسمبر کو جاری سرکلر میں کہا گیا ہے کہ ضروری اہمیت کی اشیا کی درآمد کے لیےسامان کی درآمد پر بھی زرِ مبادلہ کی پیشگی اجازت کی شرط دو جنوری 2023 سے ختم کی گئی ہے، ان اشیا میں خوراک، کھانے کا تیل ، فارما سوٹیکل کا خام مال، دوائیں، سرجیکل آلات، آئل اینڈ گیس، ایکسپورٹ انڈسٹری کے خام مال، اسپیئر پارٹس، کھاد، کیڑے مار ادویات اور دیگر زرعی اشیا شامل ہیں، البتہ درآمدات کے لیے درآمد کنندہ ایک سال کی ڈیفرڈ پیمنٹ کا سرٹیفکیٹ دے گا یا پھر ان منصوبوں کو رعایت ملے گی جو75 فی صد مکمل ہو چکے ہیں۔

فاریکس ایکسچینج ایسوسی ایشن کے ملک بوستان کہتے ہیں کہ اس شرط کی وجہ سے ڈالر پر کچھ دباؤ تو آئے گا البتہ ملک کے اندر اس وقت ادویات اور دیگر ضروری اشیا کے حوالے سے شدید مشکلات ہیں۔ لوگوں کو یہ ضروری چیزیں اسٹیٹ بینک کی پابندی کی وجہ سے نہیں مل رہی تھیں۔ اس سرکلر کے آنے کے بعد انہیں کچھ ریلیف مل سکے گا اور حالات بہتر ہوں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئےملک بوستان نے کہا کہ ڈالر کی اسمگلنگ میں پاکستان کے درآمد کنندگان بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب حکومت کی طرف سے پر تعیش اشیا کی درآمد پر پابندی لگائی گئی اور بعد میں ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا تو ان دنوں ڈالر کا ریٹ 245 سے 217 پر آ چکا تھا۔ حکومت نے بیرونی دباؤ پر درآمدات پر عائد پابندی اور ڈیوٹی ہٹائی، اس صورتِ حال میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے کنٹینرز افغانستان جانے لگے اور وہاں کھل کر دوبارہ پاکستانی مارکیٹ میں آنے لگے۔ اس سے امپورٹرز کو ایک کنیٹنر میں 50 لاکھ روپے تک کی بچت ہوئی۔

ملک بوستان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایسا ناسور ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہورہی ہے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مالی سال کے ابتدا میں تین ہزار سے کنٹینرز بڑھ کر 15 ہزار ہوچکے ہیں۔ یہ غیرقانونی امپورٹ ہے جس کے لیے ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

مہنگائی میں مسلسل اضافہ؛ 'دوپہر کا کھانا کھانا چھوڑ دیا ہے'

روپے کی قدر کی نشان دہی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قیمت میں فرق اس وقت بینک ریٹ کے مقابلے میں لگ بھگ 15 سے 20 روپے زائد ہے۔اگر اوپن مارکیٹ میں ڈالر 235 کا ہے تو بلیک مارکیٹ میں یہی ڈالر 250 سے 255 روپے کا مل رہا ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ برآمدات کرنے والے تاجر بھی انڈر انوائسنگ کر رہے ہیں۔ اگر کوئی چیز 10 ڈالر کی ہے تو اسے پانچ یا پھر آٹح ڈالر کا ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس کی ادائیگی دبئی یا کسی اور ملک میں ہنڈی کے ذریعے وصول کی جا رہی ہیں۔ اس وقت ہماری برآمدات کم نہیں ہوئیں بلکہ انڈر انوائسنگ ہو رہی ہے۔ بعض برآمد کنندگان درآمدات بھی کرتے ہیں، وہ برآمدات کے بدلے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں سامان منگوا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بیرونِ ملک سے ترسیلات زر بھی تین ارب ڈالر کے قریب تھیں۔ اس فرق کی وجہ سے اب یہ دو ارب ڈالر کے قریب رہ گئی ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کے اندر جو کرنسی ایکسچینج ہوتی تھی، اس میں 45 کروڑ کے قریب سعودی ریال، اماراتی درہم وغیرہ ایکسچینج ہوتے تھے اور ان کے بدلے پاکستانی روپے دیے جاتے تھے لیکن اب وہ بھی کم ہوکر 10 کروڑ رہ گئے ہیں جو پاکستانی معیشت کے لیے ایک مشکل صورتِ حال ہے۔

ملک بوستان کے مطابق افغانستان جانے والوں ہر فرد کو فی کس 1000 ڈالر لے جانے کی اجازت ہے۔ اس طریقے سے لگ بھگ ایک کروڑ 50 لاکھ ڈالر قانونی طریقے سے پاکستان سے افغانستان منتقل ہو رہے ہیں۔

حکومت کو دی گئی تجویز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس پر ایکشن لے تاکہ پاکستانی ڈالر بچ سکیں۔ اس کے ساتھ کوئلہ اور سبزی فروٹ کے لیے پاکستان نے روپے میں ادائیگی کا کہا تھا لیکن وہاں موجود افغان پاکستانی روپے لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان سے ڈالر کا مطالبہ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے مارکیٹ سے بلیک میں خرید کر یہ چیزیں منگوائی جاتی ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستانی معیشت میں پیسہ نہ ڈالا گیا تو عدم استحکام بڑھے گا، تجزیہ کار

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی درآمدات چار ارب ڈالر سے بڑھ کر چھ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جب کہ یہ بھی وہ رقم ہے جس کو انڈر انوائس کیا گیا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت افغان حکومت کے ساتھ معاہدہ کرے کہ تمام تر تجارت پاکستانی روپے میں ہوگی اور بینکنگ چینل کے ذریعے ہوگی۔

افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی حکومت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ملک بوستان کا کہنا تھا کہ ان تمام عوامل کے علاوہ ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ افغان حکومت نے پانچ لاکھ پاکستانی روپوں سے زائد رقم رکھنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ لہٰذا زیادہ تر افغان خواہش کے برخلاف رقم کو ڈالر میں تبدیل کرا رہے ہیں۔

ان کے مطابق پاکستان کو چاہیے کہ افغان حکومت سے اس معاملے میں پابندی اٹھانے کا کہے ورنہ پاکستانی روپے پر دباؤ بڑھتا رہے گا۔ یہ بات درست ہے کہ افغانستان کے لیے عالمی سطح پر پاکستان کے علاوہ کوئی سہارا نہیں ہے لیکن انہیں بھی پاکستانی معیشت کو سہارا دینا ہوگا کیوں کہ پاکستان اگر مضبوط ہوگا تو ہی افغانستان کی مدد کرسکے گا۔

اسلام آباد کے سینئر صحافی ثنااللہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلیک مارکیٹ میں ڈالر اور روپے کی قدر میں فرق اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ عام آدمی ڈالر کو بینک یا پھر اوپن مارکیٹ میں بیچنے کے بجائے بلیک مارکیٹ میں فروخت کرنا زیادہ بہتر سمجھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ڈالر کی کمی نہیں ہے کیوں کہ پاکستان کو تین ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر ہر ماہ آ رہی تھی۔ اس کے علاوہ تین ارب ڈالر کی پاکستان کی برآمدات ہیں۔ اس کے ساتھ دیگر چینلز سے بھی پاکستان کو ایک ارب ڈالر سے زائد آ رہے تھے البتہ بدقسمتی سے پاکستان کی معیشت کے علاوہ افغان معیشت کا بوجھ بھی پاکستان پر ہی ہے اور ہر ماہ ڈھائی سے تین ارب ڈالر افغانستان جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ڈالر کیسے جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں، اس پر حکومت کو سوچنا ہوگا بصورت دیگر اسے کنٹرول نہ کیا گیا تو ملکی معیشت مزید مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔