پاکستان میں حزبِ اختلاف کی نو جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اسلام آباد کی جانب اعلان کردہ لانگ مارچ کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف تحریک کے طریقۂ کار پر پی ڈی ایم جماعتوں میں پہلے بھی اختلافات پائے جاتے تھے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے منگل کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کے فیصلے پر اتفاقِ رائے نہ ہونے پر 26 مارچ کو شیڈول لانگ مارچ کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اپوزیشن اتحاد نے گزشتہ ماہ کے آغاز میں حکومت مخالف لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا اور حکومت کے خاتمے کے لیے اتحاد میں شامل جماعتوں نے اپنے اپنے اراکینِ اسمبلی سے استعفے بھی لے لیے تھے۔
اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ سینیٹ انتخابات کے بعد کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ تاہم سینیٹ انتخابات میں اکثریت رکھنے کے باوجود شکست کے بعد حزبِ اختلاف کے اتحاد میں اختلافات سامنے آئے ہیں۔
تیرہ مارچ کو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حزبِ اختلاف کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کو حکومتی امیدوار صادق سنجرانی نے شکست دی تھی۔
SEE ALSO: سات سینیٹرز نے ووٹ خراب نہیں کیے تو ڈپٹی چیئرمین کو سات ووٹ زائد کیسے مل گئے؟منگل کو اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے دوران آئندہ کے لائحہ عمل پر طویل مشاورت ہوئی جس کے دوران رہنماؤں نے لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دینے سمیت مختلف امور پر تبادلۂ خیال کیا۔
بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ لانگ مارچ کے ساتھ استعفوں کو وابستہ کرنے کے حوالے سے حزبِ اختلاف اتحاد کی نو جماعتیں اس کے حق میں تھیں البتہ پیپلز پارٹی نے اتفاق نہیں کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے مشاورت کے بعد فیصلے سے آگاہ کرنے کا کہا ہے۔
ان کے بقول، "ہم پیپلز پارٹی کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔ لہٰذا 26 مارچ کا لانگ مارچ پیپلز پارٹی کے جواب تک ملتوی تصور کیا جائے۔"
اس اعلان کے ساتھ ہی مولانا فضل الرحمان صحافیوں کے سوالات لیے بغیر ہی پریس کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے۔ اُن کا پریس کانفرنس چھوڑ کر جانا اس قدر غیر متوقع تھا کہ حزبِ اختلاف کے دیگر رہنما انہیں واپس بلاتے رہے۔ اس دوران مریم نواز روسٹرم پر آئیں اور پیپلز پارٹی کے استعفوں کے فیصلے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہنے لگیں کہ جب تک پیپلز پارٹی واپس آکر جواب نہیں دیتی وہ کچھ قیاس آرائی نہیں کرسکتیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم قائم ہے اور حزب اختلاف کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں حکومت کا جلد خاتمہ ہو گا۔
اس سے قبل اجلاس میں حزبِ اختلاف کی دو بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان حکومت مخالف تحریک کے طریقۂ کار پر شدید اختلاف سامنے آئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ پاکستان واپس آئیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی میں خوف زدہ نہیں اور اگر جیل جانا پڑے تو سب کو جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونا حکومت کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے اور حزبِ اختلاف کو ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہیئیں جس سے اتحاد ٹوٹ جائے۔
آصف زرداری نے استعفوں کو نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط کرتے ہوئے کہا کہ تمام حزب اختلاف کی جماعتوں کے اراکینِ پارلیمنٹ اپنے استعفے نواز شریف کے پاس جمع کرانے کے لیے تیار ہیں۔
SEE ALSO: وزیرِ اعظم کے استعفیٰ کی ڈیڈ لائن ختم، اب پی ڈی ایم کیا کرے گی؟ذرائع کے مطابق اجلاس میں شریک نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے آصف زرداری کی پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کو نواز شریف کی واپسی سے مشروط کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو جیل میں دل کے دو دوڑے پڑے اور ان کی جان کو پاکستان میں خطرہ ہے۔
مریم نواز نے آصف زرداری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے وطن واپس نہ آنے کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کا ہے اور پیپلز پارٹی کو اس فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔
'بنیادی اختلافات لانگ مارچ کے فیصلے میں رکاوٹ ہیں'
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اعلانیہ اختلاف کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کی حکومت مخالف تحریک کا مستقبل مخدوش ہے۔
تجزیہ کار اور 'پاکستان ٹوڈے' کے مدیر عارف نظامی کہتے ہیں کہ آصف زرداری کی پی ڈی ایم کے اجلاس میں کی گئی گفتگو جذباتی نہیں تھی بلکہ ایک سوچا سمجھا اقدام تھا جس کے ذریعے انہوں نے مسلم لیگ (ن) جو پیغام دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کی نواز شریف کی وطن نہ آنے سے متعلق نکتہ چینی کے بعد پی ڈی ایم کا مستقبل مخدوش ہے۔ ان کے بقول دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان زیرِ بحث رہنے والے اختلافات باہر آگئے ہیں۔
عارف نظامی کہتے ہیں بنیادی اختلافات کی وجہ سے پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس استعفوں اور لانگ مارچ کا فیصلہ نہیں کر سکا۔
تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق پی ڈی ایم کی جماعتوں میں حکومت مخالف تحریک کے طریقۂ کار پر اختلافات پہلے بھی موجود تھے۔ ان کے بقول پیپلز پارٹی پارلیمانی نظام کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کرنا چاہتی ہے جب کہ دیگر جماعتیں احتجاجی سیاست پر یقین رکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخابات اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کے پیپلز پارٹی کے مؤقف کو ایک حد تک پی ڈی ایم نے تسلیم کیا جس سے پی ڈی ایم زیادہ مضبوط نظر آئی۔ لیکن اپوزیشن اتحاد کے حالیہ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے اپنے مؤقف پر زور دینے سے اتحاد میں دراڑیں نظر آرہی ہیں۔
'حکومت کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں'
زاہد حسین کہتے ہیں حزبِ اختلاف اتحاد کو جھٹکا ضرور لگا ہے۔ لیکن سب جماعتوں کا اتفاق ہے کہ اتحاد کی صورت میں ہی حکومت پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب حکومت کے لیے یہ اطمینان کی بات ہے کہ لانگ مارچ یا دھرنے سے اسے فوری کوئی خطرہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے پارلیمنٹ سے مستعفی نہ ہونے کے فیصلے میں اسٹیبلشمنٹ کی قربت کے حصول سے زیادہ سیاسی مصلحت شامل ہے کیوں کہ ان کے بقول اس عمل سے انہیں سندھ کی حکومت سے محروم ہونا ہوگا۔
زاہد حسین نے کہا کہ تمام جماعتیں اپنے مفادات اور مقاصد کو سامنے رکھتی ہیں اور مولانا فضل الرحمن یا مسلم لیگ ن کا سسٹم میں اسٹیک زیادہ نہیں۔ نظام سے باہر نہ نکلنے کا پیپلز پارٹی کا مؤقف اب تک حاوی رہا ہے کہ استعفوں کے بعد کیا اقدام لیا جائے گا۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا یہ مؤقف بھی ہے کہ اگر بزور قوت حکومت کو گرا بھی دیا جائے تو ضروری نہیں ہے کہ جمہوریت چلتی رہے گی۔
عارف نظامی کے بقول آصف زرداری مسلم لیگ ن سے ہٹ کر اپنا تشخص بنانا چاہتے ہیں بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اور وہ اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
عارف نظامی کی رائے میں نواز شریف کا چند روز قبل عسکری قیادت سے متعلق بیان نے بھی آصف زرداری کو یہ پالیسی لینے پر قائل کیا ہو گا۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو اگرچہ کوئی فوری خطرہ نہیں لیکن حزبِ اختلاف کی تحریک نے وزیرِ اعظم عمران خان کے اعتماد کو بے نقاب کر دیا یے۔