|
|
کوئٹہ -- بلوچستان کے ضلع ہرنائی سے جمعرات کو لاپتا ہونے والے 10 افراد کی شناخت ہو گئی ہے۔ ان افراد کو نامعلوم مسلح افراد نے ہرنائی کے سیاحتی علاقے شابان سے مبینہ طور پر اغوا کر لیا تھا۔
واضح رہے کہ اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لیبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ہرنائی اور کوئٹہ کے سنگم پر واقع سیاحتی مقام شابان سے اغوا ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
اس سلسلے میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بھی ہوا بھی ہوا جس میں مغویوں کی شناخت ہو گئی ہے۔
حکام کے مطابق اغوا ہونے والے سیاحوں میں سے دو کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے جب کہ چھ افراد کوئٹہ کے مقامی سیٹلرز ہیں اور باقی دو افراد مقامی بلوچ اور پشتون قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اہلکار کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں اب تک اغوا کاروں کی جانب سے کسی قسم کا مطالبہ سامنے نہیں آیا تاہم فورسز مغویوں کی بازیابی کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اب تک یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ مغویوں کو مارگٹ کے دشوار گزار پہاڑی سلسلے میں لے جایا گیا ہے جس کی وجہ سے بازیابی کی کوششوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔
واقعہ کب اور کیسے پیش آیا؟
ہرنائی لیویز کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیاحوں کے اغوا کا واقعہ جمعرات کی شب اس وقت پیش آیا جب عید کے بعد بڑی تعداد میں لوگ پکنک منانے شابان میں موجود تھے۔
اہلکار کے بقول شابان کے قریبی پہاڑی سلسلے سے 40 سے 50 کے قریب نامعلوم مسلح افراد نیچے اُتر آئے اور وہاں موجود 150 سے زائد سیاحوں کو یرغمال بنایا۔
مسلح افراد سیاحوں کے قومی شناختی کارڈز چیک کرنے کے بعد 14 سیاحوں کو الگ کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔
بتایا جا رہا ہے کہ مغویوں میں سے ایک شخص بلوچستان کسٹم کا اہلکار ہے۔
SEE ALSO:
وہ 'عسکریت پسند' تنظیمیں جو پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کا باعث بنیںبلوچستان: علیحدگی پسند تنظیموں کے حملوں میں اچانک اضافہ کیوں؟ پاکستان میں کون سے عسکریت پسند گروہ چینی مفادات کو نشانہ بناتے ہیں؟مقامی لیویز افسر کے مطابق اغوا کار شابان کے مقام پر موجود سیاحوں کی دو گاڑیاں بھی ہمراہ لے گئے ہیں۔
لیویز حکام کے مطابق رات گئے اغوا کاروں نے چار افراد کو رہا کیا جو دو گاڑیاں لے کر واپس اپنے کیمپ پہنچے ہیں۔
حکام کے مطابق مذکورہ علاقے میں فون کی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث واقعے کی ابتدائی اطلاعات تک رسائی میں مشکلات رہی۔
واقعے کے بعد لیویز اور دیگر سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے جب کہ مغویوں کی تلاش کے لیے آپریشن جاری ہے۔
عینی شاہدین نے واقعے کے حوالے سے لیویز حکام کو بتایا ہے کہ پہاڑ سے اترنے والے افراد کی تعداد دو درجن سے زائد تھی جو کلاشنکوف اور دیگر جدید اسلحے سے لیس تھے۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع ہرنائی کا شمار بھی صوبے کے شورش زدہ علاقوں میں ہوتا ہے ماضی میں بھی یہاں سے سرکاری افسران اور کان کنوں کے اغوا کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔
سیاحتی مقام شابان کہاں واقع ہے؟
شابان بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے تقریبا 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعے ایک سیاحتی مقام ہے۔
یہ سیب اور دیگر پھلوں کے باغات سے مالا مال ہے جہاں ایک ڈیم بھی واقع ہے۔ عید کے موقع پر بڑی تعداد میں سیاح اس مقام کا رخ کرتے ہیں مگر خستہ حال سڑک کے باعث اس مقام تک سفر کرنا مشکل ہے۔
یہاں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔
یاد رہے کہ اس قبل بھی رواں سال اپریل میں دہشت گردوں نے بلوچستان کے ضلع نوشکی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو مسافر بس سے اتار کر شناخت کے بعد قتل کر دیا تھا۔
اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ مئی میں بلوچستان کے ساحلی گوادر میں بھی پیش آیا تھا جب نامعلوم مسلح افراد نے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مزدوروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔
شابان واقعے پر تاحال صوبائی حکومت کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس واقعے کی رپورٹ درج ہو سکی ہے۔
ماضی میں بھی ہرنائی اور ملحقہ علاقوں میں پیش آنے والے واقعات کی ذمہ داری عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں حالیہ واقعے کی ذمہ داری بھی کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لیبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔
تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ شابان میں بی ایل اے کے فتح اسکواڈ نے ایک انٹیلی جینس آپریشن کے دوران 10 مشکوک افراد کو حراست میں لیا ہے جن سے مزید تفتیش کی جاری ہے۔