پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے اعتماد کا ووٹ لینے کے فیصلے کے بعد صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی کا اجلاس ہفتے کو طلب کر لیا ہے۔
سینیٹ کے انتخابات میں تین مارچ کو حزبِ اختلاف کے امیدوار یوسف رضا گیلانی نے جنرل نشست پر حکومت کے امیدوار حفیظ شیخ کو شکست دی۔ اس نشست کے لیے قومی اسمبلی کے ارکان نے ووٹ ڈالے تھے۔ بعض مبصرین اور حزبِ اختلاف کا کہنا تھا کہ حکمران اتحاد کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو گئی ہے جس کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا رضاکارانہ فیصلہ کیا۔
وزیرِ اعظم کو قومی اسمبلی کے نصف سے زائد یعنی کم از کم 171 ارکان کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر وہ اسمبلی سے اپنا اعتماد کھو دیں گے۔
قومی اسمبلی کا یہ غیر معمولی اجلاس سہ پہر سوا بارہ بجے شروع ہوگا جس میں وزیرِ اعظم عمران خان پر اعتماد کی قرارداد پیش کی جائے گی۔
قومی اسمبلی قواعد کے مطابق یہ رائے شماری اوپن ووٹنگ یعنی شو آف ہینڈز کے ذریعے ہو گی۔
پی ڈی ایم کا اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے وزیرِ اعظم پر اعتماد کے ووٹ کے لیے بلائے گئے قومی اسمبلی اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے سکھر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس کے بائیکاٹ کا باضابطہ اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کی صورت میں حکومت پر عدم اعتماد ہو چکا ہے۔
انہوں نے نئے انتخابات کا مطالبہ بھی کیا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہفتے کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کا کوئی رکن شریک نہیں ہو گا اور اپوزیشن کی عدم شرکت کے بعد اس اجلاس کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ ان کے اراکین اسمبلی نے پیسے لے کر ووٹ بیچے ہیں اور اب وہ ان ہی بکاؤ اراکینِ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا چاہتے ہیں۔
قبل ازیں حزبِ اختلاف نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تھا۔
اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جمعرات کو میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ عمران خان نے سینیٹ کی اسلام آباد کی نشست پر ناکامی پر اسمبلیاں تحلیل کرنے کا کہا تھا۔ لہذا اعتماد کے ووٹ کے بجائے نئے انتخابات کرائے جائیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حزبِ اختلاف کا اتحاد وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد اپنے وقت پر لے کر آئے گا جسے کامیاب بنانے کے لیے انہیں حکومتی اراکین کی حمایت حاصل ہو گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کی شب قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ ارکان اسمبلی ضمیر کے مطابق اعتماد کے ووٹ میں حصہ لیں اور اگر ان پر اعتماد ظاہر نہیں کیا جاتا تو وہ اپوزیشن میں چلے جائیں گے۔
'حزبِ اختلاف کی تحریکِ عدم اعتماد سے قبل اعتماد کے ووٹ کا فیصلہ'
سیاسی امور کے تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ سینیٹ انتخاب میں وفاقی دارالحکومت کی نشست ہر شکست کے باعث جو بحران پیدا ہوا تھا اس کو کم کرنے کے لیے عمران خان کے پاس جمہوری طریقوں میں سے ایک طریقہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پروفیسر حسن عسکری نے کہا کہ اس سے قبل کہ حزبِ اختلاف عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لاتی۔ وزیرِ اعظم نے پہل کرکے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر عمران خان 172 ارکان کی سادہ اکثریت کی حمایت حاصل کر لیتے ہیں تو ان کی سیاسی و آئینی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔
ان کے بقول اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہونے پر یہ بیانیہ کہ عمران خان قومی اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھے ہیں، اپنی جگہ نہیں بنا سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اگر اعتماد کا ووٹ نہ لیتے۔ تو حزبِ اختلاف ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا کہتی۔
ان کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف کی حکمتِ عملی میں اعتماد کے ووٹ کے لیے بلائے گئے اجلاس کو شور شرابے سے نہ چلنے دینا اور آئندہ کچھ روز میں تحریک عدم اعتماد لانا ہو سکتا یے۔
اعتماد کا ووٹ اور نمبر گیم
وزیرِ اعظم عمران خان کو 342 کے ایوان میں اعتماد کے ووٹ کے لیے 171 اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔
اگست 2018 میں عمران خان 176 ووٹ لے کر وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تھے۔
اگر قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی عددی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو اس وقت قومی اسمبلی میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 157 ارکان ہیں۔ جب کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سات ارکان، بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ، مسلم لیگ (ق) کے پانچ، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے تین، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک ایک رکن اور ایک آزاد رکن کی حمایت حکومت کو حاصل ہے۔
یوں حکمران اتحاد کے اراکینِ اسمبلی کی موجودہ تعداد 180 بنتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پارٹی پوزیشن کے لحاظ سے قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ارکان کی کل تعداد 160 ہے جن میں مسلم لیگ (ن) کے 83، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے 55، متحدہ مجلس عمل کے 15، بی این پی مینگل کے چار، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا ایک اور دو آزاد ارکان شامل ہیں۔
اعتماد کا ووٹ کیسے حاصل ہو گا؟
قواعد کے مطابق وزیرِ اعظم کے انتخاب اور اعتماد کے ووٹ کا طریقۂ کار تقریباً ایک جیسا ہے۔ البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ اعتماد کے ووٹ میں اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 91 کی ذیلی شق سات کے تحت اگر صدرِ پاکستان کو ایسا محسوس ہو کہ وزیرِ اعظم اراکین اسمبلی کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ تو وہ وزیرِ اعظم سے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہتے ہیں۔
اعتماد کے ووٹ کے حصول کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس صدر کی جانب سے طلب کیا جاتا یے۔
قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق وزیرِ اعظم آئین کے آرٹیکل 91 کی ذیلی شق سات اور سیکنڈ شیڈول پر عمل کرتے ہوئے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیتے ہیں۔
قاعدہ دو کے رول 36 میں بیان کردہ طریقۂ کار کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اجلاس شروع ہونے سے قبل پانچ منٹ تک پارلیمنٹ ہاؤس میں گھنٹیاں بجائیں گے تاکہ تمام اراکین اسمبلی ہال میں پہنچ سکیں۔
اجلاس کی کارروائی کے آغاز سے قبل اسمبلی ہال کے داخلی و خارجی دروازے بند کر دیے جائیں گے جس کے بعد کسی رکن کو ایوان سے باہر یا اندر آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایوان میں قرارداد پیش کریں گے جس کے بعد ایوان کو تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
قرارداد کی حمایت کرنے والے اراکین اسمبلی اپنا ووٹ ریکارڈ کرانے کے لیے گیلری اے جب کہ مخالفت کرنے والے گیلری بی کی جانب جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ووٹ دینے کے بعد ممبران ایوان میں واپس نہیں آتے بلکہ وہ لابی میں انتظار کرتے ہیں۔
تمام اراکین کی ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد ممبران کو ایوان میں واپس بلوایا جاتا ہے اور اسپیکر باضابطہ طور پر نتائج کا اعلان کرتے ہیں۔
اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے عمل کے دوران اگر قومی اسمبلی کے 172 سے کم ارکان وزیرِ اعظم پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ اور باقی ارکان غیر حاضر رہیں یا ایوان میں ہوتے ہوئے بھی لابیز میں جا کر شمار کنندگان کے پاس اپنے نام کا اندراج نہیں کرائیں گے۔ تو اس کا مطلب ہو گا کہ وزیرِ اعظم ایوان میں اکثریت کھو چکے ہیں۔