بھارت کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں (لوک سبھا) میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کے خلاف اپوزیشن اتحاد کی جمع کرائی گئی تحریکِ عدم اعتماد پر بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
لوک سبھا کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے 12 گھنٹے کی منظوری دی ہے۔ توقع ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی جمعرات کو بحث کا جواب دیں گے۔
اجلاس سے قبل کہا جا رہا تھا کہ اس تحریکِ عدم اعتماد پر بحث کا آغاز کانگریس رہنما راہل گاندھی کریں گے۔ لیکن ان کے اجلاس کے آغاز پر موجود نہ ہونے پر حکومتی جماعت بھارتیہ جنتہ پارٹی (بی جے پی) کے ارکان نے تنقید کی۔
حزبِ اختلاف کی 26 جماعتوں کے اتحاد ’انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلیوسیو الائنس‘ (انڈیا) نے ریاست منی پور میں نسلی فسادات سمیت دیگر وجوہات کی وجہ سے وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لوک سبھا میں جمع کرائی تھی۔ تاہم پارلیمان سے اس تحریکِ کی منظوری کا امکان نہیں۔
کانگریس کے رکن پارلیمان گوگی گوراوو نے تحریکِ عدم اعتماد پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریاست منی پور میں فسادات ہو رہے ہیں تو اس سے صرف منی پور نہیں جل رہا بلکہ پورا بھارت جل رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ منی پور میں ہونے والے فسادات پر وزیرِ اعظم بیان دیں لیکن انہوں نے اس پر بات نہیں کی۔
انہوں نے ایوان میں سوالات رکھے کہ مودی آج تک منی پور کیوں نہیں گئے؟ انہوں نے منی پور پر 80 دن بعد بیان کیوں دیا؟ وہ بھی صرف انہوں 30 سیکنڈ بات کی۔ ان کے مطابق مودی وزیرِ اعظم ہونے کے ناطے وہاں امن کے قیام کی کوشش کرتے تو وہ کسی اور وزیر یا شخصیت کی کوشش سے مختلف ہوتی۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ منی پور کے وزیرِ اعلیٰ کو اب تک تبدیل کیوں نہیں کیا گیا؟ وہ خود تسلیم کر چکے ہیں کہ ان کی وجہ سے انٹیلی جنس ناکامی ہوئی ہے۔
بعد ازاں بی جے پی کے رکنِ پارلیمان نشیکانت دوبے نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد ایک غریب کے بیٹے کے خلاف ہے۔ ان کے بقول اپوزیشن والے اقربا پروری کو نہیں جان سکیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد اس شخص کے خلاف ہے جس نے لوگوں کو گھر بنا کر دیے اور ان کو پینے کا پانی پہنچایا۔
ان کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد اس شخص کے خلاف ہے جس نے لوگوں کے گھروں میں اجالا لانے کی کوشش کی۔
قبل ازیں یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے خلاف ایوانِ زیریں (لوک سبھا) میں حزبِ اختلاف کی جمع کرائی گئی تحریکِ عدم اعتماد پر آج بحث کا آغاز حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کریں گے جو حال ہی میں اپنی پارلیمانی رکنیت کی بحالی کے بعد ایوان میں آئے ہیں۔
حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے دن 12 بجے شروع ہونے والے لوک سبھا کے اجلاس سے قبل پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا تھا۔ اجلاس میں پارلیمانی کارروائی کے حوالے سے حکمتِ عملی کو حتمی شکل دی گئی۔
نریندر مودی نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب میں اپوزیشن کی تحریک سے متعلق کہا تھا کہ "وہ لوگ آخری گیند پر چھکا مارنا چاہتے ہیں۔"
SEE ALSO: راہل گاندھی کی چار ماہ بعد پارلیمنٹ میں واپسی
وائس آف امریکہ کے سہیل انجم کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حزبِ اختلاف کے جوش و خروش سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد 'انڈیا' کے حلیف متحد ہیں اور راہل گاندھی کو اس اتحاد کا اہم رہنما تصور کرتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد اس لیے پیش کی گئی ہے تاکہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کو اس مسئلے پر بولنے کے لیے مجبور کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ اپوزیشن کو ایوان کے اندر ملک کو درپیش دیگر مسائل کو بھی اٹھانے کا موقع ملے گا۔
سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کا خیال ہے کہ حزبِ اختلاف نے اپنی دانست میں وزیرِ اعظم کو منی پور کے مسئلے پر بولنے کا ایک موقع دیا ہے۔ لیکن مودی کے اندازِ خطابت کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنا مؤقف رکھنے کے بعد مختلف معاملات پر بھی اظہارِ خیال کریں گے اور اپوزیشن کو شکست دینے کی کوشش کریں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جب بھی وزیر اعظم کو ایوان میں الزامات کا جواب دینے کا موقع ملا ہے انہوں نے دفاعی حکمت عملی کے بجائے جارحانہ مزاج اپنانے کو ترجیح دی اور کانگریس کی سابقہ حکومتوں کو بہت سے مسائل کا ذمہ دار قرار دیا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ یہ واضح ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی اور مودی حکومت پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن تحریک کا پیش کیا جانا اپنے آپ میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ خاص طور پر 2024 کے عام انتخابات سے قبل یہ مرحلہ بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق کسی بھی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا پیش کیا جانا اس کے لیے اچھا تصور نہیں کیا جاتا۔ موجودہ حکومت کے لیے بھی اسے اچھا نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ اگرچہ اس سے انہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن اس کے لیے یہ ایک دھچکہ ضرور ہے۔
بعض یوٹیوب نیوز چینلز پر لوک سبھا میں جاری بحث پر تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب مودی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر بحث ہو رہی ہے وہ ایوان سے غیر حاضر ہیں۔
SEE ALSO: بھارت: چلتی ٹرین میں ٹارگٹ کلنگ، 'نفرت کا جن بوتل سے باہر آ گیا ہے'
تجزیہ کار راجیش ٹھکر کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کو بولنے کا شوق ہے سننے کا نہیں۔ شاید اسی وجہ سے وہ منگل کو بھی ایوان میں نہیں آئے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ وہ اپنے چیمبر میں بیٹھ کر بحث دیکھ رہے ہوں۔ لیکن اچھا ہوتا کہ وہ ایوان میں آتے۔
انہوں نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد منی پور کے مسئلے پر پیش کی گئی ہے۔ لیکن بہت کم لوگ مقررین اس پر بول رہے ہیں۔ خاص طور پر حکومتی اتحاد کے ارکان منی پور پر بولنے سے ہچکچاتے نظر آ رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بحث کے اختتام پر ہونے والی ووٹنگ کا تجزیہ کیا جائے گا اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں میں سے کس کا کیا رخ رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اپوزیشن کے 26 جماعتوں کے اتحاد سے پریشان ہے۔ اسی لیے حکمران اتحاد 'این ڈی اے' میں مزید پارٹیوں کو شامل کیا گیا ہے جس کے بعد حلیف جماعتوں کی تعداد 38 ہوگئی ہے۔
ان کے بقول ان میں سے متعدد جماعتیں ایسی ہیں جو بہت چھوٹی ہیں اور انہوں نے گزشتہ الیکشن نہیں لڑا ہے۔
پشپ رنجن کا خیال ہے کہ بی جے پی خود کو مضبوط دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن اگر اس کی نظریاتی سرپرست تنظیم 'راسٹریہ سویم سیوک سنگھ' (آر ایس ایس) کی اندرونی رپورٹ دیکھیں تو اس میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ آر ایس ایس کے ترجمان 'آرگنائزر' میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 کا الیکشن وزیرِ اعظم نریندر مودی کے چہرے پر نہیں جیتا جا سکتا۔
ادھر بی جے پی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ 2024 کے انتخابات میں بھی این ڈی اے کی جیت ہوگی اور مرکز میں ایک بار پھر وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت قائم ہوگی۔
حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ منی پور میں 1993 اور 1997 میں بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے، لیکن اس وقت بھی پارلیمان میں کوئی بیان نہیں دیا گیا تھا۔
SEE ALSO: تحریکِ عدم اعتماد؛ وزیر اعظم مودی کو اکثریت حاصل ہونے کے باوجود کیا سیاسی چیلنجز ہیں؟حزبِ اختلاف کا مؤقف رہا ہے کہ بھارت کی ایک ریاست میں نسلی فسادات سے 170 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں شہری زخمی ہوئے ہیں جب کہ کئی ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان حالات میں وزیرِ اعظم کے لیے اس سے زیادہ توجہ طلب کوئی معاملہ نہیں ہے۔
خیال ہے کہ نریندر مودی اپنی وزارتِ عظمی میں 2018 میں بھی تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کر چکے ہیں۔ اس وقت اس تحریک کے حق میں 126 ووٹ ڈالے گئے تھے جب کہ 325 ووٹوں سے اسے مسترد کیا گیا تھا۔
اس وقت بھارت کی لوک سبھا میں 570 نشستیں جب کہ ایوان میں اکثریت کے لیے 270 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
بی جے پی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے حکمران اتحاد کو ایوان میں 332 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ جب کہ دو دیگر پارٹیوں اڑیسہ کی حکمران جماعت بجو جنتا دل اور آندراپردیش کی حکمران یوجنا سرمیکا ریتھو کانگریس پارٹی کے 34 ارکان بھی حکمران اتحاد کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس طرح تحریکِ عدم اعتماد کے خلاف 366 ووٹ ملنے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب بھارت کی متحدہ حزبِ اختلاف کے ارکان کی مجموعی تعداد 142 ہے۔