نواز شریف کی واپسی؛ مسلم لیگ (ن) مینارِ پاکستان پر 10 لاکھ لوگ اکٹھے کر سکے گی؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف چار برس بعد 21 اکتوبر کو پاکستان واپس پہنچ رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے پارٹی قائد کے استقبال کے لیے مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں 10 لاکھ افراد جمع کرنے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی 16 ماہ کی حکومت اور اس دوران مہنگائی کے طوفان پر پارٹی کو تنقید کا بھی سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے لیے بڑی تعداد میں لوگوں کو مینارِ پاکستان میں جمع کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔

نواز شریف کی واپسی سے قبل مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیرِ اعظم شہباز شریف اور مریم نواز نے بھی عوامی رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے اور اس حوالے سے پارٹی کی سطح پر پارٹی میٹنگز بھی جاری ہیں۔

کیا مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی آمد پر بڑا سیاسی شو کرنے میں کامیاب ہو سکے گی؟ کیا لوگ خود نواز شریف کے جلسے میں آئیں گے یا اُنہیں لایا جائے گا؟ اور مسلم لیگ (ن) کیا تیاریاں کر رہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سابق وزیرِ اعظم کی آمد سے قبل عوامی اور سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث ہیں۔

ایسے میں مسلم لیگ (ن) کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے جلسے میں لوگوں کو لانے کے لیے پارٹی کو مشکلات کا سامنا ہے۔

پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر نواز شریف کے جلسے میں مرغن کھانوں کا انتظام ہو گا تو پھر لوگ آ جائیں گے۔

'لوگ آتے نہیں لانا پڑتا ہے'

پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ مینارِ پاکستان میں جلسے کا اعلان کر کے مسلم لیگ (ن) نے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال دیے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر صوبے میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز کی بات کی جائے تو 10 لاکھ لوگ جمع کرنا اتنا مشکل نہیں لیکن بڑے اور کھلے مقام پر جلسے کا اعلان کر کے مسلم لیگ (ن) نے اپنی سیاسی ساکھ داؤ پر لگائی ہے، یہ خطرناک گیم ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست ہے کہ ایسے جلسوں میں لوگ خود نہیں آتے بلکہ انہیں لانا پڑتا ہے۔

اُن کے بقول پارٹی رہنماؤں کی یہ ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں کہ وہ جلسہ گاہ تک لوگوں کو لانے کے لیے ٹرانسپورٹ اور کھانے کا انتظام کریں۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے جلسوں میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو 'آرگینک کراؤڈ' کہلاتے ہیں یعنی لوگ بغیر کسی لالج یا غرض کے جلسہ گاہ پہنچتے ہیں۔

SEE ALSO: نواز شریف کی واپسی؛ 'سابق وزیرِ اعظم کے لیے اب بہت کچھ بدل چکا ہے'

خیال رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں کئی جلسے کر چکے ہیں اور ان کی جماعت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ اُن کے جلسے میں لوگ بغیر کسی غرض کے عمران خان کا خطاب سننے آتے ہیں۔

پی ٹی آئی مینارِ پاکستان میں سب سے بڑے جلسے کرنے کے بھی دعوے کر چکی ہے۔

احمد بلال محبوب کے خیال میں نواز شریف مینارِ پاکستان جلسے میں اپنی سابقہ حکومت کی کارکردگی کا ہی ذکر کریں گے۔

مسلم لیگ (ن) کیا تیاریاں کر رہی ہے؟

نواز شریف کی آمد سے قبل لاہور کے مختلف مقامات پر نواز شریف کے خیرمقدمی بینرز اور پوسٹرز بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدرسیف الملوک کھوکھر کے مطابق نواز شریف لاہور ایئرپورٹ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر مینارِ پاکستان جلسہ گاہ پہنچیں گے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاہور کے عوام کو مینارِ پاکستان لانے کی ضرورت نہیں، وہ نواز شریف کے استقبال کے لیے خود باہر نکلیں گے۔

سیف الملوک کھوکھر نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ اگر جلسے کے بعد کھانا ہو گا تو ہی لوگ شرکت کریں گے۔ ان کے بقول نواز شریف کی سابقہ حکومتوں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، لہذٰا لاہور کے عوام اُن کے استقبال کے لیے ضرور جمع ہوں گے۔

'ہر حلقے سے 3500 لوگوں کو لانے کا ٹاسک ہے'

مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو قریب سے دیکھنے والے صحافی اور اینکر پرسن عمر اسلم کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کے مطابق پارٹی نے لاہور کے صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے سے 3500 افراد کو لانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ یوں صرف لاہور سے ایک لاکھ پانچ ہزار افراد جلسہ گاہ میں لانے کا پروگرام ہے۔

عمر اسلم کے مطابق مسلم لیگ (ن) اس جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف روزانہ کی بنیاد پر میٹنگز کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رانا ثناء اللہ فیصل آباد سے بڑا جلوس لے کر جلسہ گاہ پہنچیں گے جب کہ جلسہ گاہ میں حلقے کے لحاظ سے ڈویژن کی جائے گی اور ان 3500 افراد کی گنتی بھی کی جائے گی۔

نواز شریف کی وطن واپسی، کب کیا ہوا؟

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی ملک سے روانگی اور خود ساختہ جلا وطنی کے بعد وطن واپسی کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ ستمبر 2007 میں بھی سابق وزیرِ اعظم سات برس بعد لندن سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ لیکن چار گھنٹے بعد اُنہیں ایک اور طیارے پر جدہ بھیج دیا گیا تھا۔

اس دوران مسلم لیگ (ن) اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں تھیں اور کارکنوں کو اسلام آباد ایئرپورٹ جانے سے روکا گیا تھا۔

سابق وزیرِ اعظم آخرکار نومبر 2007 میں پاکستان واپس آئے تھے اور 2008 کے انتخابات میں حصہ بھی لیا تھا۔

نواز شریف 13 جولائی 2018 کو اس وقت لاہور ایئرپورٹ پہنچے تھے جب چھ جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں سابق وزیرِ اعظم کو 10 برس جب کہ اُن کی صاحبزادی مریم نواز کو سات برس قید کی سزا سنائی تھی۔

نواز شریف کے استقبال کے لیے مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف کی قیادت میں ریلی نکالی تھی، لیکن اس دوران مسلم لیگ (ن) اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے باعث ریلی ایئرپورٹ نہیں پہنچ سکی تھی۔

اس دوران سیکیورٹی اداروں نے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے نواز شریف اور مریم نواز کو ایئرپورٹ سے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا تھا۔