پنجاب پولیس نے میانوالی میں سات دن کی نومولود بیٹی کو گولیاں مار کر قتل کرنے والے باپ کو دریا خان کے علاقے سے گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس کے مطابق شاہ زیب نامی ملزم بیٹی کی پیدائش پر خوش نہیں تھا اور اس نے اپنی اہلیہ اور رشتہ داروں کی موجودگی میں اپنی نومولود بیٹی کو قتل کر دیا تھا۔
پولیس کے مطابق اُنہیں مخبر نے اطلاع دی کہ شاہ زیب ضلع بھکر میں اپنے بھائی کے گھر چھپا ہوا ہے۔ جسے فوری طور پر چھاپہ مار کر پکڑا جا سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں ریڈ پارٹی موقع پر پہنچی تو ملزم شاہ زیب کے گھر والوں نے مزاحمت بھی کی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مزاحمت کی وجہ سے ملزم موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا، تاہم اسے بعدازاں گرفتار کر لیا گیا۔
دو روز قبل پیش آنے والے اس اندوہناک واقعے پر سماجی حلقوں کی جانب سے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ملزم کی فوری گرفتاری کے مطالبے کیے جا رہے تھے۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر میانوالی اسماعیل الرحمان کھاڑک نے ایک بیان میں کہا کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے پولیس نے تین ٹیمیں تشکیل دیں تھیں۔
اُن کے بقول پولیس پارٹی نے کئی جگہوں پر ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے اور آخر کار اسے جمعرات کو بھکر سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ تفتیش مکمل کر کے پولیس جلد از جلد چالان عدالت میں جمع کرا دے گی تاکہ ملزم کو اس کے کیے کی سزا مل سکے۔ پولیس کے مطابق ملزم کی گرفتار ی میں خلل ڈالنے پر کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔
SEE ALSO: کیا پھر بیٹی ہوئی ہے؟میانوالی کے رہائشی شاہ زیب کی دو برس قبل شادی ہوئی تھی، تاہم چند روز قبل بیٹی کے پیدائش پر وہ خوش نہیں تھا اور اپنی اہلیہ سے بھی ناراضی کا اظہار کر رہا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم شاہ زیب نے اپنی اہلیہ کی گود سے اپنی سات دِن کی بچی کو چھین کر زمین پر پٹخ دیا اور اُسے پانچ گولیاں مار کر موقع سے فرار ہو گیا۔
شاہ زیب کی اہلیہ مشعل فاطمہ کے چچا ہدایت اللہ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کی بھتیجی چاہتی ہے کہ شاہ زیب کو سزائے موت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اُن کی بھتیجی تاحال ذہنی صدمے میں ہے۔ وہ کسی سے بات نہیں کر رہی۔ وہ بار بار روتی ہے اور اپنی بیٹی کے کپڑے دیکھتی رہتی ہے۔
'یہاں بیٹی کی پیدائش پر افسوس کیا جاتا ہے'
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن اور جامعہ قائداعظم میں جینڈر اسٹڈیز کی سابقہ ڈائریکٹر فرزانہ باری سمجھتی ہیں کہ معاشرے میں پدرشاہی سوچ کا پاکستانی معاشرے پر زیادہ غلبہ ہے۔ جس کے باعث خواتین کے خلاف ایک مخصوص سوچ کام کرتی رہتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ زیادہ تر گھروں میں جب بھی بیٹی پیدا ہوتی ہے تو افسوس کا عالم ہوتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ بچیوں کی پیدائش پر خوشیاں منائیں۔
فرزانہ باری کے بقول معاشرے میں ایک سوچ پائی جاتی ہے کہ عورت دوسرے درجے کی شہری ہے۔ جس کی عزت اور غیرت مرد کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ معاشرے میں ابھی تک عورت کو ایک خودمختار حیثیت سے رہنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔
فرزانہ باری سمجھتی ہیں کہ اپنی ہی بیٹٰی کو جان سے مار دینے کی سوچ انتہا پسندانہ ہے۔
مشعل فاطمہ کے چچا ہدایت خان بتاتے ہیں کہ ملزم شاہ زیب کی ذہنی حالت درست ہے اور اُس کے رشتہ دار اُسے سزا سے بچانا چاہتے ہیں۔ اِسی لیے وہ اُس کے متعلق ایسی باتیں پھیلا رہے ہیں۔
ہدایت خان کے مطابق شاہ زیب اور مشعل کے درمیان کوئی گھریلو ناچاقی نہیں تھی۔ شاہ زیب بیٹے کی خواہش رکھتا تھا اور بیٹی پیدا ہونے پر ناخوش تھا۔
فرزانہ باری کے بقول بیٹے کی خواہش ہونا بھی درست نہیں ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب لڑکے اور لڑکیوں کے لیے یکساں مواقع اور خاص طور پر معاشی لحاظ سے یکساں مواقع ہوں گے تو بیٹوں کی خواہش رکھنے کی سوچ آہستہ آہستہ ختم ہوتی جائے گی۔
اُنہوں نے کہا کہ معاشرے میں تعلیم، خواتین کے لیے یکساں مواقع، بہتر تعلیمی سہولیات، بہتر طبی سہولیات اور بہتر قوانین سے ایک سوچ کو بدلا جا سکتا ہے۔
خیال رہے، ورلڈ اکنامک فورم کی عالمی صنفی عدم مساوات کی سال 2021 کی رینکنگ میں 156 ممالک میں پاکستان کا نمبر 153 ہے۔