صدر مملکت عارف علوی نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) اور الیکشنز ایکٹ میں ترامیم کے آرڈیننس جاری کردیے ہیں۔ پیکا کے تحت جھوٹی یا جعلی خبر دینے پر اب پانچ سال تک سزا دی جا سکے گی جب کہ الیکشنز ایکٹ کے مطابق ارکانِ پارلیمنٹ پر انتخابی مہم کے دوران حلقوں کے دوروں پر پابندی ختم کر دی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں نے پیکا کے حوالے سے جاری آرڈیننس کو مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ اس قانون کو اب حکومت اور ریاست سے اختلاف کرنے والوں اور ناقدین کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔
پیکا ترمیمی آرڈیننس میں ہے کیا؟
صدر عارف علوی کے پیکا کے حوالے سے جاری کردہ ترمیمی ایکٹ میں شخص کی تعریف شامل کر دی گئی ہے۔ شخص میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہیں۔
آرڈیننس کے مطابق سیکشن 20 میں ترمیم کے بعد کسی بھی فرد کے تشخص کے خلاف حملے کی صورت میں تین سال قید کی سزا کو بڑھا کر پانچ سال کر دیا گیا ہے جب کہ شکایت درج کرانے والا شخص متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہوگا۔
آرڈیننس کے مطابق کسی بھی فرد کے تشخص کے خلاف حملے کے جرم کو قابلِ دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے اور یہ ناقابلِ ضمانت جرم ہو گا۔ ٹرائل کورٹ چھ ماہ کے اندر اس حوالے سے کیس کا فیصلہ کرے گی۔
آرڈیننس کے تحت ٹرائل کورٹ ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ میں جمع کرائے گی۔ ہائی کورٹ کو اگر لگے کہ کیس جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو وہ اس بارے میں رکاوٹیں دور کرنے کے احکامات جاری کر سکیں گی۔
وفاقی و صوبائی حکومتیں اور متعلقہ افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا۔ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور دیگر افسران کو ان کیسز کے لیے نامزد کر سکیں گے۔
الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترامیم
پیکا کے ساتھ ساتھ صدر عارف علوی نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس بھی جاری کیا ہے۔
نئے آرڈیننس کے تحت تمام اسمبلیوں، سینیٹ اور مقامی حکومتوں کے ارکان الیکشن مہم کے دوران تقریر کر سکیں گے جب کہ منتخب نمائندوں پر انتخابی حلقوں کے دوروں کی مانعت نہیں ہو گی۔
حالیہ عرصے میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے کئی وزرا اور ارکانِ پارلیمنٹ کو مختلف انتخابات کے دوران انتخابی حلقوں میں اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی مہم چلانے پر الیکشن کمیشن کی طرف سے نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔
وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے رکنِ قومی اسمبلی علی امین گنڈاپور کو 50 ہزار روپے جرمانہ بھی کیا گیا تھا البتہ اب حکومت نے اس آرڈیننس کے تحت انتخابی مہم میں جانے کی پابندی ختم کر دی ہے۔
'جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے قانون ضروری تھا'
ان آرڈیننسز کے حوالے سے کراچی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ پیکا اور الیکشن کا آرڈیننس جاری کر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کوڈ آف کنڈکٹ کا ایکٹ بابر اعوان نے بنایا ہے۔ الیکشنز ایکٹ میں ترمیم کے تحت کوئی بھی انتخابی مہم چلا سکتا ہے اور یہ قانون سب کے لیے ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیکا قانون کی ڈرافٹنگ انہوں نے خود کی۔ جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے یہ قانون ضروری تھا۔ ان کے بقول جھوٹی خبر معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے۔ معاشرے کی بنیاد جھوٹ پر رکھی جائے تو کیا بنے گا۔
وفاقی وزیرِ قانون نے کہا کہ اب جھوٹی خبر پھیلانے پر پانچ سال تک کی سزا ہو گی۔ مرتکب شخص کو ضمانت بھی نہیں ملے گی۔ کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔ چھ ماہ میں فیک نیوز کیس کا ٹرائل نہ ہوا تو متعلقہ جج سے پوچھا جائےگا۔
وفاقی وزیر نے الزام عائد کیا کہ پاکستان سے متعلق جھوٹی خبروں میں بھارت کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ قانون ان لوگوں کے لیے ہے جو پبلک آفس ہولڈر یا مشہور شخصیات ہیں۔
وزیرِ قانون نے کہا کہ صحافت، ریاست کا چوتھا ستون ہے البتہ کچھ لوگ ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ میڈیا تنقید کرنے میں آزاد ہے لیکن جھوٹی خبر نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ قانون میڈیا پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ فیک نیوز اب نہیں ہونی چاہیے۔
عمران خان کے حوالے سے ا نہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم کی ذاتی زندگی سے متعلق باتیں پھیلائی گئیں۔ اب جعلی خبروں پر کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
'کل کو یہی قانون پی ٹی آئی کے خلاف بھی استعمال ہوگا'
سینئر صحافی اور اینکرپرسن حامد میر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیکا قانون کی توسیع ہے جب 2016 میں یہ قانون آیا تھا تو صحافیوں نے اس وقت بھی اس کی مخالفت کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت یہ قانون سول سوسائٹی، وکلا، صحافی اور سیاسی رہنماؤں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ آج مسلم لیگ (ن) والے ان سے متفق ہیں البتہ آج صحافی پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو کہہ رہے ہیں کہ کل کو یہ قانون آپ کے خلاف استعمال ہو گا۔
حامد میر نے کہا کہ پاکستان کے عام شہریوں کا عدلیہ یا فوج کے ساتھ کوئی تنازع نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص ان پر ایسے ہی تنقید نہیں کرتا۔ تنقید اس وقت ہوتی ہے جب وہ آئین میں دیے گئے اپنے کردار کے خلاف کوئی کام کرتے ہیں۔ جب یہ ادارے سیاست میں مداخلت کرتے ہیں تو اس وقت ان پر تنقید کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں ایک تاریخ ہے کہ چار دفعہ فوج نے مارشل لا لگایا۔ اب اگر کہا جائے کہ فوج کو سیاست میں کردار ادا نہیں کرنا چاہیے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ فوج کے خلاف بات ہو رہی ہے۔ چند شخصیات پر تنقید کو اداروں پر تنقید نہیں سمجھنا چاہیے۔
حامد میر نے مزید کہا کہ اس آرڈیننس میں اداروں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اب اگر کوئی صحت کارڈ پر تنقید کرتا ہے تو اس سے بھی اس قانون کے تحت پوچھا جا سکتا ہے اور کئی برس کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اگر راوی اربن پروجیکٹ پر تنقید ہو تو اس پر پوچھا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اداروں کی آڑ میں پاکستان میں چینی ماڈل لاگو کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت یہ آرڈیننس لے کر آئی ہے البتہ بل لے کر اسمبلی نہیں آ رہی۔ پارلیمان کو ربڑ اسٹیمپ بنا دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس آرڈیننس کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس قانون کو عدالت لے کر جائیں گی۔
’قانون کو اختلاف رکھنے والی آوازوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا‘
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ یہ حکومت جو بھی قوانین بنا رہی ہے، کہنے کو تو میڈیا اور اپوزیشن کی آواز بند کرنے کے لیے ہیں البتہ یہ قوانین عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف استعمال ہونے والے ہیں۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے بھی اس آرڈیننس کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس قانون کو اختلاف رکھنے والی آوازوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔
سینئر صحافی اور اینکر پرسن کامران یوسف نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ نیوز چینلز، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بند کر دیں۔ امید ہے ایسا کرنے سے مہنگائی کی شرح 13 فی صد سے کم ہو کر صفر ہو جائے گی۔ فی کس آمدن امریکہ کے برابر ہو جائے گی جب کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے گا اور پاکستان ایشیا کا ٹائیگر۔
ان کا کہنا تھا کہ ویسے شمالی کوریا بھی یہی سمجھتا ہے تمام برائیوں کی جڑ اظہار رائے ہے ۔
حالیہ دنوں میں سینئر صحافی محسن جمیل بیگ کے خلاف بھی پیکا قانون کے تحت ہی مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں ٹی وی چینل پر عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کی کتاب کا حوالہ دینے پر وفاقی وزیر مراد سعید نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔
محسن جمیل بیگ پر ایف آئی اے کے کیس کے علاوہ منی لانڈرنگ، دہشت گردی ،اقدام قتل اور ایک نیا مقدمہ ناجائز اسلحے کی برآمدگی کا بھی درج کیا گیا ہے۔