انسداد دہشت گردی کے امور کے ماہرین پاکستان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے، پاکستان نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر خرم اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان کی حالیہ پیشکش اور مذاکرات کا مقصد، ان کے خیال میں، ''اتمام حجت ہے''
بقول ان کے، اگر ماضی میں قبائلی علاقوں میں ہونے والی بڑی فوجی کارروائیوں پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان کےخلاف کسی بڑی فوجی کارروائی سے پہلے حکومت نے ہمیشہ تحریک طالبان پاکستان کو مذاکرات کی پیشکش کی اور اس نے ہمیشہ اس حوالے سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی کی طرح اس بار تحریک طالبان پاکستان اس پیش کش میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔ البتہ، اسکے چند دھڑے ایسے ضرور ہیں جو اسے مثبت انداز میں لے رہے ہیں، اور یہ وہ دھڑے ہیں جو ماضی میں بھی اسی رویے کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔
ڈاکٹرخرم اقبال نے کہا کہ اصل چیلنج یہ ہے کی اصل قومی دھارے میں تحریک طالبان پاکستان کا کیا رویہ ہے۔ بقول ان کے''اگر ہم ماضی کے تجربات کو پیش نظر رکھیں، تو معلوم ہوگا کہ انکو کسی قسم کے مذاکرات سے کوئی دلچسپی نہیں رہی''۔
اس سوال کے جواب میں کہ اگر انکےخلاف فوجی کارروائی کرنی پڑی تو پاکستان کس طرح سے کر سکتا ہے، کیوںکہ ان کے زیادہ تر ٹھکانے تو اب افغانستان کے اندر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس بار فوجی کارروائی ہوئی تو اسکا انداز ماضی سے مختلف ہو گا؛ اور افغانستان میں انکی جو پناہ گاہیں ہیں، ان کےخلاف پاکستان کے پاس دو آپشنز ہوں گے۔
اوّل تو یہ کہ افغان طالبان کو اعتماد میں لیکر انہیں آمادہ کیا جائے کہ وہ خود انکے خلاف کارروائی کریں یا پھر تحریک طالبان پاکستان کے اندرونی اختلافات اور دھڑے بندی کا فائدہ اٹھا کر انکے کمانڈرز کو اسی طرح ہدف بنایا جائے جیسے ماضی میں بنایا گیا۔
اس سلسلے میں افغان طالبان کے رول کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر خرم اقبال نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے وہ ایک دوہری مشکل کا شکار ہیں؛ کیونکہ طالبان کی سینئر قیادت یقیناً پاکستان کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہے گی۔ لیکن ساتھ ہی، یہ خطرہ بھی ہے کہ اگر افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کی گئی تو خود ان کی صفوں سے اس سلسلے میں رد عمل ہو سکتا ہے۔
اسلئے، بقول ان کے،ہو سکتا ہے کہ افغان طالبان کا اس سلسلے میں تعاون زیادہ تر بیانات تک ہی محدود رہے، کیونکہ اگر وہ کوئی بڑا عملی اقدام کرتے ہیں تو ایک مجاہد تنظیم کی حیثیت سے انکی شہرت متاثر ہو سکتی ہے اور دوسرے تیسرے کیڈر کے طالبان جو انہیں اپنا جہادی بھائی سمجھتے ہیں اس پر ناراض ہو سکتے ہیں، جس سے داعش بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہے اور ان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لئے بھی یہ صورت حال ایک بڑا چیلنج ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر ٹی ٹی پی ملا ہبت اللہ اخونزادہ کی بیعت نہیں کرتی اور انکی ہدایت کے مطابق پاکستان مخالف جہاد ترک نہیں کرتی ہے تو وہ اگر چاہیں تو انہیں ملک سے نکال تو سکتے ہیں۔
سیکیورٹی کے ایک ماہر، بریگیڈیر سعد نذیر نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں جب انکے خلاف کارروائی کی گئی تو ٹی ٹی پی نے افغانستان میں پناہ لی۔ اور، بقول ان کے، اس وقت کی حکومت نے انہیں اپنے مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا اور غیر ملکی انٹیلیجینس اداروں نے بھی ان کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔
لیکن، انھوں نے کہا کہ، اب صورت حال بدل چکی ہے۔ افغانستان میں طالبان کا کنٹرول ہے جو اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔ ٹی ٹی پی کی فارن فنڈنگ بھی بظاہر رک چکی ہے اور وہ اکیلے رہ گئے ہیں اور دباؤ میں ہیں۔
سعد نذیر نے کہا کہ ٹی ٹی پی یہ بات جانتی ہے کہ طالبان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ انہیں غیر مسلح کر سکتے ہیں۔ اس لیے، اگر مذاکرات کے ذریعے امن کی راہ نکل سکتی ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس موقع سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے یہ بات بتا چکے ہیں کہ ان کی حکومت تحریک طالبان پاکستان میں شامل بعض جنگجو گروپوں کے ساتھ امن مذاکرات کر رہی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان، کالعدم جنگجو گروپوں کا ایک اتحاد ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں ملوث رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے ٹی آر ٹی کو بتایا تھا کہ یہ بات چیت افغانستان میں ہو رہی ہے اور افغان طالبان اس عمل میں مدد دے رہے ہیں۔
مختلف جنگجو گروپوں کا یہ اتحاد 2007ء کے اواخر میں وجود میں آیا تھا۔ بیت اللہ محسود اسکے بانی تھے۔ ان لوگوں کو اکثر پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے۔
پاکستان کے اندر اس گروپ نے بڑے مہلک حملے کئے ہیں جن میں بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا جس کے بعد انکے خلاف فوجی آپریشن کے نتیجے میں پاکستان میں انکے بیشتر ٹھکانے تباہ کر دیے گئے اور انہوں نے افغانستان کے اندر پناہ لی اور اپنے ٹھکانے وہاں بنا لئے اور مبینہ طور پر وہ وہاں سے پاکستان کے خلاف حملے کرتے ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان کی ماضی کی حکومتوں نے اس سلسلے میں پاکستان کی شکایتوں پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی، بلکہ بعض تجزیہ کاروں کے بقول، انہیں ان حکومتوں کی حمایت بھی حاصل رہی۔ لیکن اب افغانستان میں صورت حال مختلف ہے اور وہاں طالبان کا کنٹرول ہے اور دنیا سے انکا وعدہ ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
مذکورہ مذاکرات کے حوالے سے، اطلاعات کے مطابق، ٹی ٹی پی نے اپنے جنگجوؤں کو حملے جاری رکھنے کے لئے کہا ہے اور جمعے کے دن پاکستان کے ایک فوجی قافلے پر حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5